وہ بخوبی سمجھ سکتے ہیں کہ اگر یہاں علامہ رحمہ اللہ کے پیش نظر واقدی کے علاوہ کسی اور کا قول نقل کرنا ہوتا تو یقیناً آں رحمہ اللہ حسب عادت اس قول کی تخریج بمع قید اسناد فرماتے، ویسے بھی ایک ہی پیراگراف میں مسلسل و متصلاً بلا قید اسناد کسی دوسرے قول کو نقل کرنا عموماً اسی قائل کی طرف راجع ہوتا ہے۔ اگر پھر بھی جناب اصلاحی صاحب اپنے دعویٰ پر مصر ہوں کہ یہ ’’حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما‘‘ ہی کا قول ہے تو ہم کہیں گے: یہ دعویٰ محتاج دلیل ہے، اس بات کو ناقابل قبول بنانے والے چند امور یہ ہیں: (1) - اس قول کا بلا سند منقول ہونا، (2) – آثار صحابہ پر جتنی بھی معروف و مستند کتب آج دنیا میں موجود ہیں ان میں سے کسی میں بھی یہ قول حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی نہ ہونا، (3) – صحابہ کرام میں سے مشہور اہل علم حضرات مثلاً حضرات علی، عبداللہ بن عباس، عبداللہ بن مسعود، ابو الدرداء، زید بن ثابت، ابی بن کعب، عائشہ صدیقہ، ابو ہریرہ، انس بن مالک، جابر بن عبداللہ، معاذ، سعد بن ابی وقاص، عبادہ بن الصامت، ابو موسیٰ اشعری، ابن عمرو بن العاص، طلحہ، زبیر، عبدالرحمٰن بن عوف، عمران بن حصین، سلمان، ابن الزبیر، معاویہ اور مقداد وغیرہم رضی اللہ عنہم اجمعین میں سے کسی سے بھی یہ قول منقول نہیں ہے، (4) – تمام محققین و محدثین اس قول کو واقدی سے ہی منسوب کرتے آئے ہیں، لہٰذا حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی طرف یہ دعویٰ قطعا باطل ہے۔
پس جب یہ محقق اور معلوم ہو چکا کہ ’’اہل علم حضرات‘‘ سے اس قول کی حکایت کرنے والا شخص واقدی ہے، اور وہ اپنے کذب کے لئے مشہور بھی ہے جیسا کہ ’’صحابی کی اصطلاحی تعریف‘‘ (تیسرا قول) کے تحت اس کا ترجمہ و تعارف پیش کرتے ہوئے بیان کیا جا چکا ہے، لہٰذا اس کے اور دوسرے اقوال کی طرح اس قول کا بھی کوئی اعتبار نہیں ہے۔ پھر اس ناقابل اعتبار حکایت کنندہ نے اس فکر کے قائل ’’اہل علم حضرات‘‘ کے اسماء کی تفصیل بھی پردہ خفا میں رکھی ہے ورنہ بہ آسانی اس حکایت کی حقیقت بھی معلوم کی جا سکتی تھی کہ اس کے ہم عصر علماء میں سے کچھ لوگ واقعتاً اس فکر کے قائل تھے بھی یا نہیں؟ اور اگر تھے تو وہ کون لوگ تھے؟ واضح رہے کہ واقدی کے اس قول پر تفصیلی بحث اوپر رواں باب کے حصہ اول میں ’’صحابی کی اصطلاحی تعریف‘‘ (پانچواں قول) کے تحت گزر چکی ہے۔
آگے چل کر جناب اصلاحی صاحب بزعم خود محدثین کی رائے یوں بیان فرماتے ہیں:
دوسرے گروہ کی رائے: اس کے مقابلے میں دوسرے گروہ کی رائے سعید بن مسیب رحمہ اللہ کے الفاظ میں یہ ہے: ’’الصحابة لا نعدهم إلا من أقام مع رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم سنة أو سنتين و غزا معه غزوة أو غزوتين‘‘ سعید بن مسیّب فرماتے ہیں کہ ہم صحابی صرف انہی کو شمار کرتے ہیں جنہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ
|