Maktaba Wahhabi

70 - 363
کا قول ہے کہ: ’’ضحاک بن مزاحم کی حضرت ابن عباس اور حضرت ابو ہریرہ سے روایات اور جو کچھ ان سے روایت کیا جاتا ہے وہ سب محل نظر ہیں‘‘۔ علامہ زیلعی رحمہ اللہ نے بھی ضحاک کی ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ملاقات نہ ہونے کی صراحت کی ہے۔ بلکہ علامہ طاہر پٹنی تو یہاں تک فرماتے ہیں کہ: ’’ضحاک، ابن عباس سے روایت کرنے میں ضعیف مجروح ہیں، انہوں نے ابن عباس سے سماع نہیں کیا ہے، وہ فی نفسہ صدوق ہیں لیکن ابن عباس سے ان کی روایت منقطع ہوتی ہے الخ۔‘‘ مزید تفصیلات کے لئے حاشیہ [1] کے تحت مذکورہ کتب کی طرف رجوع فرمائیں۔ اگر دیکھا جائے تو معنوی اعتبار سے بھی یہ روایت ’’انتہائی ضعیف‘‘ ہی نہیں بلکہ ’’خانہ ساز‘‘ اور ’’من گھڑت‘‘ معلوم ہوتی ہے جیسا کہ محدث عصر علامہ شیخ محمد ناصر الدین الالبانی رحمہ اللہ نے اپنی مشہور کتاب ’’سلسلة الأحاديث الضعيفه والموضوعه‘‘[2]میں صراحت کی ہے۔ اس حدیث کا متن بتاتا ہے کہ اس کے مخاطب صحابہ کرام نہیں بلکہ ان کے بعد کے لوگ ہیں، پھر اس حدیث کے آخری حصہ میں صحابہ کرام کے اختلاف کو غیر صحابیوں کے لئے باعث رحمت بتایا گیا ہے حالانکہ اختلاف تو ہمیشہ رحمت کے بجائے زحمت کا باعث ہی ہوا کرتا ہے چنانچہ اسلام میں اختلاف و انتشار کے بجائے ہمیشہ اتحاد و اتفاق پر ہی زور دیا گیا ہے، پس استثنائی طور پر اختلاف صحابہ کیونکر باعث رحمت ہو سکتا ہے؟ مزید تفصیلات کے لئے ’’تلخیص الحبیر‘‘ لابن حجر عسقلانی، [3] ’’اتحاف السادہ المتقین‘‘ للزبیدی [4] اور ’’كشف الخفاء و مزيل الإلباس ‘‘[5]للعجلونی وغیرہ کی طرف مراجعت مفید ہو گی۔ واضح رہے کہ علامہ خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے اس ضمن میں ایک اور حدیث یوں روایت کی ہے: ’’سألت ربي فيما اختلف فيه أصحابي من بعدي فأوحي اللّٰه إلي يا محمد إن أصحابك عندي بمنزلة النجوم في السماء بعضها أضوأ من بعض فمن أخذ بشيء مما هم عليه من اختلافهم فهو عندي علي هدي‘‘ [6]
Flag Counter