یعنی ’’میں نے اپنے رب سے اپنے بعد اپنے صحابہ کے اختلاف کے متعلق پوچھا تو اللہ تعالیٰ نے میرے پاس وحی بھیجی کہ اے محمد! میرے نزدیک تیرے صحابہ آسمان میں ستاروں کی منزلت میں ہیں کہ ان میں سے بعض بعض سے زیادہ روشن ہے، پس جس نے ان کے مختلف طریقوں میں سے کسی بھی طریقہ کو اختیار کیا وہ میرے نزدیک ہدایت پر ہے‘‘۔
خطیب بغدادی کے علاوہ اس حدیث کی تخریج ابن عساکر نے [1]، ابن بطہ نے ’’الابانۃ‘‘[2]میں اور ضیا المقدسی نے ’’المنتقيٰ عن مسموعاته بمرو‘‘[3]میں بھی کی ہے۔ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ نے ’’الجامع الصغیر‘‘[4]میں وارد کر کے گویا اس کی صحت کی طرف اشارہ کیا ہے، لیکن یہ حدیث بھی ’’موضوع‘‘ (یعنی ’’خانہ ساز‘‘) ہے کیونکہ یہ بطریق نعیم بن حماد عبدالرحیم بن زید العمی عن ابیہ عن سعید بن المسیب عن عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ تعالیٰ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہ مروی ہے، اور اس کا راوی نعیم بن حماد عند المحدثین ’’ضعیف‘‘ اور اس کا شیخ عبدالرحیم بن زید العمی ’’کذاب‘‘ ہے ابن عساکر رحمہ اللہ نے اس کی تخریج کے بعد اس پر سخت کلام کیا ہے۔ امام ابن عبدالبر رحمہ اللہ نے امام بزار رحمہ اللہ سے بھی اس حدیث میں نکارت نقل کی ہے۔ امام ابن الجوزی رحمہ اللہ نے ’’العلل المتناهية في الأحاديث الواهية‘‘[5]میں اس حدیث کو غیر صحیح اور باطل قرار دیا ہے۔ امام ذہبی رحمہ اللہ نے بھی ’’میزان الاعتدال‘‘ میں [6] میں اسے غیر صحیح بتایا ہے علامہ منادی رحمہ اللہ نے بھی ’’الجامع الصغیر‘‘ کی شرح میں اس کی صحت پر کلام کیا ہے۔
اس ضمن میں ایک اور زبان زد حدیث کے الفاظ یہ ہیں: ’’أصحابي كالنجوم بأيهم اقتديتم اهتديتم‘‘ اس حدیث کو حافظ ابن عبدالبر نے ’’جامع العلم‘‘[7]میں اور امام ابن حزم رحمہ اللہ نے ’’الاحکام‘‘[8]میں نقل کیا ہے۔ علامہ شعرانی رحمہ اللہ نے ’’المیزان الکبریٰ‘‘ [9] میں اہل کشف کے نزدیک اس کی صحت بیان کی ہے
|