Maktaba Wahhabi

361 - 363
نقشہ سا کھنچ جاتا ہے۔ بعض اس واقعہ کو مختصراً بیان کرتے ہیں۔ اسی طرح احادیث نقل کرنے میں بھی صحابی ہو بہو آں صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ نقل کر دیتے ہیں اور بعض صحابی دوسرے الفاظ کے ساتھ اس کا مفہوم و معنی ادا کر دیتے ہیں۔ ان میں سے کسی صحابی کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کذب بیانی کا ارادہ نہیں ہوتا بلکہ سب کا مقصد صدق اور جو کچھ انہوں نے سنا یا دیکھا ہوتا اسے یا کم از کم اس کے معنی و مقصد کو بیان کر دینا ہوتا ہے۔ وہ لوگ کہا کرتے تھے: ’’إنما الكذب علي من تعمده‘‘ یعنی جھوٹ کا الزام اس پر عائد ہوتا ہے جو عمداً ایسا کرے۔ اسے عمران بن مسلم نے روایت کیا ہے۔ [1] امام مسلم رحمہ اللہ کا اس واقعہ کو پہلے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے پھر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کرنے کا مقصد بھی وہی ہے جس کو حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے حدیث کے معاملہ میں محدثین کے طریق کار کو بیان کرتے ہوئے یوں تحریر فرمایا ہے: ’’محدثین کسی واقعہ یا حکم کے متعلق ایک حدیث کسی ایک صحابی سے تخریج کرتے ہیں، پھر اگر کوئی دوسرا صحابی بھی اسی واقعہ یا حکم کو بیان کرتا ہوا مل جائے تو اس سے بھی تخریج کرتے ہیں۔ اس سے ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ حدیث حد غرابت سے نکل جائے یا دوسری حدیث سے کوئی زائد فائدہ حاصل ہو جائے اور اس لئے بھی کہ بعض رواۃ احادیث کو پوری طرح روایت کرتے ہیں اور بعض مختصر طریقہ پر۔ پس ایک محدث ان سب روایات کو ان کے ناقلین کی جانب سے پیدا شدہ شبہ کو زائل کرنے کے پیش نظر وارد کر دیتا ہے۔ یہ اس وجہ سے بھی ہوتا ہے کہ کبھی بعض رواۃ کی احادیث کی عبارت مختلف ہوتی ہیں۔ پس ایک راوی حدیث کو اس طرح بیان کرتا ہے کہ اس کا کوئی کلمہ ایک مخصوص معنی پر محمول ہوتا ہے، پھر جب اسی حدیث کو کوئی دوسرا راوی بیان کرتا ہے تو اسی کلمہ کو بعینہ دوسری عبارت کے ساتھ، کہ جو دوسرے معنی پر محمول ہو، روایت کرتا ہے۔ محدث اس حدیث کو بھی اس کے طریق سے وارد کر دیتا ہے بشرطیکہ وہ معیار صحت پر پوری اترتی ہو‘‘۔ [2] اگر صرف اسی قصہ کے مختلف جزئیات پر غور کیا جائے تو مختلف روایات میں مختلف الفاظ ملیں گے مثلاً صاحب قصہ صحابی نے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی غلطی کا اعتراف کیا تو ’’يا رسول اللّٰه هلكت‘‘ (میں ہلاک و برباد ہو گیا) کہا۔ (بخاری و مسلم) جبکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں ’’احترقت‘‘ (مسلم و بخاری) اور ابن ابی حفصہ کی روایت میں ’’ما أراني إلا قد هلكت‘‘ (سنن سعید بن منصور) کے الفاظ مروی ہیں۔ یہ لفظی اختلاف دراصل ان کے عمداً غلطی کرنے پر استدلال کرتا ہے۔ جہاں تک ’’هلاكت‘‘ یا ’’احتراق‘‘ کا تعلق ہے تو یہ اس گناہ کی سنگینی کے احساس کے تحت مجازاً وارد ہیں۔ [3] یا اسی طرح بعض راوی اس صحابی کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ جب وہ دربار نبوی میں حاضر ہوئے تو بقول عبدالجبار بن عمر عن الزہری رحمہ اللہ وہ اپنے بال نوچ رہے تھے اور اپنا سینہ پیٹ رہے
Flag Counter