کرتی، بلکہ مجمل طور پر صدقہ کرنے کی ہدایت کرتی ہے۔ اس واقعہ کی بعض روایتوں میں دو ماہ کے روزوں کا ذکر ہی نہیں۔ روایت بالمعنی کے فرق نے ایک حکم کو غیر واضح کر دیا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ فقہاء کے درمیان کفارہ کے تعین میں بڑا اختلاف پایا جاتا ہے‘‘۔ [1]
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی پیش کردہ دونوں روایتیں معمولی لفظی اختلاف کے ساتھ ’’صحیح البخاری‘‘[2]اور ’’سنن ابی داود‘‘[3]وغیرہ میں بھی موجود ہیں لیکن یہاں ہم جناب اصلاحی صاحب کی پیش کردہ روایتوں پر ہی بحث کریں گے۔ پس واضح ہو کہ پیش کردہ ان دو روایتوں میں اصلاً کوئی اختلاف نہیں ہے بلکہ ایک میں واقعہ کی تفصیل اور دوسری میں اختصار ہے جس کے باعث اصلاحی صاحب محترم کو یہ پریشانی لاحق ہو گئی ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت بالمعنی کے باعث واقعہ میں ایسی غلطی صادر ہو گئی ہے کہ جس سے کفارہ کا اصل حکم متاثر ہو گیا ہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ روایتوں کے اس اختصار و تفصیل کے اختلاف کی بابت لکھتے ہیں:
’’اصلاً یہ ایک ہی قصہ ہے جس کو ایک راوی (حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ) نے بخوبی یاد رکھا اور بوقت روایت اس قصہ کو اس کی اصل صورت میں بیان کر دیا جبکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس واقعہ کو مختصراً نقل کیا ہے۔ طحاوی رحمہ اللہ نے اس جواب کی طرف اشارہ کیا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ اختصار بعض رواۃ کی جانب سے ہی ہے، چنانچہ عبدالرحمان بن حارث نے محمد بن جعفر بن زبیر سے اسی سند کے ساتھ یعنی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس حدیث کو مفسراً بھی نقل کیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں:
’’كان النبي صلي اللّٰه عليه وسلم جالسا في ظل فارع فجاء رجل من بني بياضة فقال: احترقت، وقعت بأمرأتي في رمضان قال اعتق رقبة لا أجدها قال أطعم ستين مسكينا قال ليس عندي فذكر الحديث ۔۔‘‘ اس حدیث کی ابن خزیمہ رحمہ اللہ نے اپنی ’’صحیح‘‘ میں، بخاری رحمہ اللہ نے اپنی ’’تاریخ‘‘ میں اور ان کے طریق سے بیہقی رحمہ اللہ نے غلام کے تذکرہ کے ساتھ روایت کی ہے لیکن اس روایت میں دو ماہ کے متواتر روزوں کا تذکرہ نہیں ہے‘‘۔ [4]
روایت حدیث میں رواۃ کی جانب سے کسی واقعہ کی تفصیل یا اختصار کا ہونا کوئی ایسی پریشانی کی بات نہیں ہے۔ راوی کے اس اختصار سے عمداً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھنا یا احکام کو چھپانا نہیں ہوتا بلکہ فطرتاً یہی ممکن اور عین عقل کا تقاضہ ہے، چنانچہ مشہور محدث، علامہ محمد جمال الدین قاسمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ بعض احادیث میں ایک ہی واقعہ کی تفصیلات روایت کرنے میں مختلف صحابہ کے الفاظ مختلف نظر آتے ہیں، کچھ تو پورا واقعہ یوں بیان کرتے ہیں کہ آپ کی آنکھوں کے سامنے اس واقعہ کا پورا
|