صحیح مسلم میں اس واقعہ کی ایک روایت حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہے اور دوسری حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت کے الفاظ یہ ہیں: ’’أنَّ النَّبيَّ صلَّى اللّٰهُ عليه وسلَّم، جاء إليه رجُلٌ، فقال: هلكتُ يا رسولَ اللّٰه، قال: وما أهلَكَك؟ قال: وقعتُ على امرأتي في رمضانَ، فقال: هل تجِد ما تُعتِقُ؟ قال: لا، قال: هل تستطيعُ أن تصومَ شَهرينِ مُتَتابِعَينِ؟ قال: لا، قال: فهل تجِد إطعامَ ستِّين مسكينًا؟ قال: لا، قال: فمكَث النبيُّ صلَّى اللّٰهُ عليه وسلَّم، فبينا نحن على ذلك، أُتِيَ النبيُّ صلَّى اللّٰهُ عليه وسلَّم بعَرَقٍ فيها تمرٌ- والعَرَقُ: المِكتَلُ- قال: أين السَّائلُ؟ فقال: أنا، قال: خُذْ هذا فتصدَّقْ به، فقال الرجُلُ: على أفقرَ مني يا رسولَ اللّٰه؟ فواللّٰهِ ما بين لابَتَيها- يريدُ الحرَّتينِ- أهلُ بيتٍ أفقرُ من أهلِ بيتي، فضحِك النبيُّ صلَّى اللّٰهُ عليه وسلَّم حتى بدَتْ أنيابُه، ثم قال: أطعِمْه أهلَك‘‘ (صحیح مسلم: کتاب الصیام، باب 14) وہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا کہ میں ہلاک ہو گیا، یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: تجھے کس نے ہلاک کیا؟ اس نے عرض کیا کہ میں اپنی بیوی پر جا پڑا، رمضان میں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: تمہارے پاس غلام آزاد کرنے کو کچھ ہے؟ اس نے جواب دیا نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا مسلسل دو ماہ کے روزے رکھ سکتے ہو؟ اس نے جواب دیا نہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا ساٹھ مسکینوں کو کھلانے کی طاقت رکھتے ہو؟ اس نے کہا: نہیں۔ راوی بیان کرتے ہیں کہ پھر وہ بیٹھا رہا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کھجوروں کی ایک ٹوکری پیش کی گئی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص سے فرمایا کہ یہ کھجور صدقہ کر دو۔ اس نے کہا: ہم سے بڑھ کر بھلا کون حاجت مند ہو گا؟ مدینہ کے دونوں سنگلاخ میدانوں کے درمیان میں کوئی گھر والا میرے گھر والوں سے زیادہ اس کا محتاج نہیں ہے۔ اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دندان مبارک نمایاں ہو گئے۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جاؤ اسے اپنے اہل خانہ کو کھلا دو۔ اب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت کے الفاظ دیکھئے: ’’—قال: تصدق، تصدق۔ قال: ما عندي شيء فأمره أن يجلس فجاءه عرقان فيهما طعام فأمره رسول اللّٰه أن يتصدق به‘‘ (صحیح مسلم: کتاب الصیام، باب 14) -- حضور نے فرمایا: صدقہ کرو، صدقہ کرو۔ اس نے عرض کی: میرے پاس تو کچھ ہے نہیں، تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بیٹھنے کو کہا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھانے کے سامان کی دو ٹوکریاں آئیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اس کے صدقہ کر دینے کا حکم دیا۔ اس روایت کی روشنی میں اگر ایک شخص روزہ توڑنے کا کفارہ معلوم کرنا چاہے تو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت سے وہ یہ نتیجہ نکالے گا کہ اسے ایک غلام آزاد کرنا ہو گا، یہ نہ ہو تو مسلسل دو ماہ کے روزے رکھنے ہوں گے، اگر وہ اس پر قادر نہ ہو تو ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلائے گا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت ان میں سے کسی چیز کا تعین نہیں |