Maktaba Wahhabi

358 - 363
روایت سے منع کرنے کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔ کیونکہ اذکار کی توقیفیت انہی الفاظ کی تعیین اور تقدیر ثواب پر موقوف ہے۔ کبھی اس لفظ میں کوئی ایسا سر (پوشیدہ امر) ہوتا ہے کہ جس کا بدل کوئی دوسرا لفظ نہیں ہوتا۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس سے نبوت اور رسالت دونوں اوصاف کو یکجا جمع کرنا مقصود ہو الخ‘‘۔[1] پس واضح ہوا کہ جناب اصلاحی صاحب کا یہ دعویٰ بھی غلط ہے کہ ’’اس کی روایت سے معنی میں ایک ایسا فرق پیدا ہو گیا تھا جس سے فلسفہ دین کی تعبیر میں غلطی ہو جاتی‘‘۔ 9- نواں اور آخری مواخذہ یہ ہے کہ جناب اصلاحی صاحب نے اس حدیث کا حوالہ یوں نقل کیا ہے: ’’صحیح البخاری: کتاب الدعوات، باب إذا بات طاہرا‘‘، حالانکہ یہ حدیث صرف ’’صحیح البخاری‘‘ میں ہی مندرجہ ذیل ابواب میں موجود ہے: ’’كتاب الدعوات: باب ما يقول إذا نام، باب إذا بات طاهرا، باب النوم علي الشق الأيمن‘‘ كتاب التوحيد: باب قول اللّٰه تعاليٰ: ’’أنزله بعلمه والملائكة يشهدون‘‘ ان کے علاوہ صحیح مسلم کے باب ما يقول عند النوم و أخذ المضجع (كتاب الذكر) میں، سنن ابوداود کے باب ما يقول عند النوم (كتاب الأدب) میں، جامع الترمذی کے باب ما يقال عند النوم (کتاب الدعوات) میں، سنن ابن ماجہ باب ما يدعو به إذا أوي إلي فراشه (کتاب الدعاء) میں، سنن الدارمی کے باب الدعاء عند النوم (کتاب الاستئذان) میں، مسند احمد، عمل الیوم واللیلۃ لابن السنی، الکفایۃ فی علم الروایۃ وغیرہ میں بھی اس کی تخریج کی گئی ہے۔ [2] پس محترم اصلاحی صاحب کا مذکورہ بالا حوالہ ناقص اور کتب احادیث پر قلت نگاہ کا مظہر ہے۔ آگے چل کر محترم اصلاحی صاحب فرماتے ہیں: ’’اسی طرح کا، بلکہ عملی زندگی میں اس سے بھی زیادہ مسئلہ بننے والا فرق وہ ہو سکتا ہے جو احکام میں واقع ہو جائے۔ اس کو ایک مثال سے سمجھئے: ایک روایت میں یہ بیان ہوا ہے کہ ایک بدو نے عمداً رمضان کا ایک روزہ توڑ دیا اور سر پیٹتا ہوا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی پریشانی کا سبب دریافت فرمایا تو اس نے تمام روداد سنائی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو روزے کا جو کفارہ بتایا اس کی روایت میں راویوں کا اختلاف دیکھئے، جو روایت بالمعنی ہی کا نتیجہ ہے۔
Flag Counter