Maktaba Wahhabi

357 - 363
’’جب کہ ’’و برسولك الذي أرسلت‘‘ (اور تیرا وہ رسول جسے تو نے مبعوث فرمایا) میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اصل منصب کی وضاحت نہیں ہوتی‘‘۔ ان دونوں اقوال کا صاف مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ کو محض اس لئے منع فرمایا تھا کہ ’’برسولك الذي أرسلت‘‘ کہنے سے آں صلی اللہ علیہ وسلم کے اصل منصب کی وضاحت نہیں ہوتی تھی، گویا نعوذ باللہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے منصب کے اظہار کے اس قدر حریص تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے منصب میں ذرا سی بھی کمی یا گراوٹ سننا گوارہ نہ تھی۔ اگر یہ بات درست نہیں تو پھر یقیناً اس منع کرنے کی وجہ وہی ہو گی جو کہ اوپر پانچویں مواخذہ کے تحت بیان کی جا چکی ہے۔ 7- ساتواں مواخذہ جناب اصلاحی صاحب کے اس قول پر ہے کہ – رسول کا منصب نبی سے بدرجہا بالاتر ہوتا ہے – جاوید احمد غامدی صاحب نے بھی اپنی کتاب ’’میزان‘‘ (1/9-30) میں ’’نبی‘‘ اور ’’رسول‘‘ کے اس منصبی فرق کو مفصلاً بیان کیا ہے لیکن ہم یہاں اس ضمن میں خطیب بغدادی علیہ الرحمۃ کہ جنہیں بقول جناب اصلاحی صاحب: ہمارے سلف میں اصول حدیث پر – سند کی حیثیت حاصل ہے، [1] کا ایک اقتباس پیش کرتے ہیں: ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس حدیث میں صحابی کے قول ’’برسولك‘‘ کو رد کرتے ہوئے ’’و بنبيك الذي أرسلت‘‘ جو کہا ہے تو لفظ ’’نبی‘‘ رسول سے زیادہ پرمدح ہے اور ان کی علیحدہ علیحدہ تعریفیں ہیں۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ رسول کا اطلاق تمام رسولوں پر ہوتا ہے لیکن نبی کا اطلاق صرف خاص انبیاء اور ان رسولوں پر ہی ہوتا ہے جن کو انبیاء میں سے فضیلت حاصل ہوتی ہے کیونکہ ان میں نبوت اور رسالت دونوں ایک ساتھ جمع ہوتی ہیں الخ‘‘۔ [2] 8- آٹھواں مواخذہ جناب اصلاحی صاحب کے اس قول پر ہے – ’’کیونکہ اس کی روایت سے معنی میں ایک ایسا فرق پیدا ہو گیا تھا جس سے فلسفہ دین کی تعبیر میں غلطی ہو جاتی‘‘۔ ’’و برسولك‘‘ سے حدیث کے معنی میں فرق کا پیدا نہ ہونا اوپر دوسرے مواخذہ کے تحت مختصراً بیان کیا جا چکا ہے۔ ہم ذیل میں حافظ زین الدین عراقی رحمہ اللہ کا ایک اقتباس اور پیش کرتے ہیں: ’’قائل کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف کے اوصاف میں سے کسی بھی وصف مثلاً نبی یا رسول صلی اللہ علیہ وسلم وغیرہ کہنے سے حدیث کی نسبت میں معنوی اعتبار سے کوئی فرق واقع نہیں ہوتا۔ اگرچہ کہ نبی اور رسول کا مدلول مختلف ہے لیکن یہاں چونکہ آپ کے اوصاف کا بیان مقصود نہیں بلکہ قائل کا آپ کو کسی ایسے وصف سے شناخت کروانا ہے جس سے کہ آپ معروف و مشہور ہوں۔ بعض حضرات جنہوں نے حافظ ابن الصلاح کی کتاب کا اختصار کیا ہے، صحیح میں موجود حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی اس حدیث سے بالمعنی روایت کی ممانعت پر استدلال کرتے ہیں لیکن اس حدیث میں بالمعنی
Flag Counter