تھے اور کہتے جاتے تھے: ’’هلك الأبعد‘‘ یعنی ’’بہت بری طرح برباد ہو گیا‘‘۔ (ابو عوانہ) جبکہ محمد بن حفصہ بیان کرتے ہیں کہ اپنے منہ پر طمانچہ مار رہے تھے (بیہقی) اور حجاج بن ارطاۃ کی روایت میں ہے کہ ’’وہ خود کو بدعاء دے رہے یا کوس رہے تھے‘‘۔ (مسند احمد) بعض روایات میں ہے کہ ’’اپنے سینہ پر گھونسے مار رہے تھے‘‘ (موطأ امام مالک) اور ابن مسیّب کی مرسل روایت میں ہے کہ ’’وہ اپنے سینہ پر خاک اڑا رہے تھے‘‘ (دارقطنی) ان کیفیات کے نقل کرنے میں جو اختلاف نظر آتا ہے اس کا اصل مقصد بھی دراصل اس واقعہ سے ان صحابی کی خود کراہت اور مذمت منقول ہونا ہے اور یہ چیز بھی عام حالات میں بعید از قیاس نہیں ہے کہ اگر چند لوگوں کی موجودگی میں کوئی واقعہ وقوع پذیر ہوا ہو تو ان میں سے ہر شخص اس واقعہ کو اپنے الگ انداز سے بیان کرے۔ سب کے بیانات میں کلمات کی ترتیب، تفصیل، معلومات اور عبارت کی ظاہری ہئیت میں فرق ہونا لازم ہے۔ خود قرآن کریم میں کسی واقعہ کے متعلق اختصار و تفصیل کا یہ اسلوب جگہ جگہ اختیار کیا گیا ہے، جس کی متعدد مثالیں ہم اوپر باب رواں کے حصہ اول میں پیش کر چکے ہیں۔
|