معنی میں فرق آ گیا تھا کیونکہ بقول امام سخاوی رحمہ اللہ وغیرہ:
’’یہ چیز قطعی طور پر محقق ہے کہ دونوں لفظوں کا معنی متحد ہے کیونکہ محدث عنہا ایک ہی ذات ہے، پس موصوف کو اس کی جس صفت سے بھی پکارا جائے اس کی مراد و منشا ایک ہی ذات قرار پائے گی‘‘۔[1]
3- جناب اصلاحی صاحب نے متن حدیث نقل کرنے میں جو چند غلطیاں کی ہیں وہ حسب ذیل ہیں:
’’عن براء بن عاذب قال۔۔‘‘ میں ’’عاذب‘‘ ذال کے ساتھ نہیں بلکہ ’’زاء‘‘ کے ساتھ ہے۔ عربی عبارت، اردو ترجمہ اور آگے بھی ص 108 سطر 2 پر براء بن عازب کو ’’ذال‘‘ کے ساتھ لکھا گیا ہے۔ اسی طرح ’’قال رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم‘‘ کے درمیان ’’لی‘‘ محذوف ہے، پھر ’’وقلْ: اللّٰهُمَّ أَسْلَمْتُ نفِسي‘‘ میں ’’نفسی‘‘ کے بجائے ’’وجهي‘‘ مروی ہے اور آگے چل کر ’’رغبةً ورهْبَةً إِلَيْكَ‘‘ کو تقدیم و تاخیر کے ساتھ لکھا گیا ہے، اسی طرح اختتام پر ’’قال لا و نبيك‘‘ نہیں بلکہ ’’قال لا و بنبيك‘‘ ہے ترجمہ میں بھی ’’و نبيك الذي أرسلت‘‘ لکھا گیا ہے جو کہ غلط ہے۔ [2]
4- چوتھا مواخذہ اصلاحی صاحب محترم کے اس قول پر ہے کہ: ’’اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سونے کے وقت کے آداب اور دعاء سکھانے کے بعد جب اس حدیث کے راوی، حضرت براء بن عاذب رضی اللہ عنہ (عازب رضی اللہ عنہ) سے دعا کے الفاظ دہرانے کے لئے کہا تو انہوں نے اس کے آخر میں الخ‘‘۔ میں پوچھتا ہوں کہ جناب اصلاحی صاحب کو اس بات کا علم کیوں کر ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ کو یہ دعا سکھانے کے بعد اس کے ’’الفاظ دہرانے کے لئے کہا‘‘ تھا؟ جبکہ حدیث مذکور میں اس امر کی کوئی صراحت موجود نہیں ہے۔ اگر اسے عقل عامہ کا تقاضہ کہا جائے تو میں عرض کروں گا کہ اس بات کا بھی تو امکان ہے کہ خود براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ دعا سیکھ کر اس کی اصلاح کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ دعاء سنائی ہو یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ آں رضی اللہ عنہ یاد کرنے کے بعد یہ دعاء کسی دوسرے صحابی کو آں صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں بتا رہے ہوں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ان کی غلطی پر متنبہ فرمایا ہو۔ شیخ سعید احمد پالن پوری حنفی (استاذ دارالعلوم دیوبند) نے ہمارے پہلے امکان کو ہی ترجیحاً بیان کیا ہے، چنانچہ ’’نخبۃ الفکر فی مصلطح أھل الأثر‘‘ کی اردو شرح میں ’’متن حدیث میں تبدیلی‘‘ کے زیر عنوان مختصراً لکھتے ہیں:
متن حدیث میں تبدیلی: حضرت براء رضی اللہ عنہ نے تصحیح کے لئے آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دعاء کے کلمات دہرائے تو بنبيك کی جگہ برسولك پڑھ گئے۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ٹوکا اور فرمایا کہ نہیں ’’بنبيك الذي أرسلت‘‘ پڑھو۔ یعنی ’’بنبيك‘‘ کو برسولك سے نہ بدلو حالانکہ رسول نبی ضرور ہوتا ہے نیز رسول کا مرتبہ بھی بڑا ہے مگر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تبدیلی گوارہ نہ فرمائی تو پھر دوسرے تغیرات کیسے پسند کئے جا سکتے ہیں‘‘۔[3]
|