Maktaba Wahhabi

353 - 363
کر لیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اصلاح فرمائی کہ نہیں ’وَبِنَبِيِّكَ الذِي أَرسَلتَ‘ کہو۔ اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سونے کے وقت کے آداب اور دعا سکھانے کے بعد جب اس حدیث کے راوی براء بن عاذب رضی اللہ عنہ سے دعا کے الفاظ دہرانے کے لئے کہا تو انہوں نے اس کے آخر میں ’’وَبِنَبِيِّكَ الذِي أَرسَلتَ‘‘ کی جگہ ’’و برسولک الذی أرسلت‘‘ کر دیا۔ ان کی اس غلطی پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ٹوکا اور اصلاح فرما دی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں ایک ایسی غلطی ہو گئی تھی جس کا تعلق دین کی ایک حقیقت سے تھا۔ اس لئے کہ ’’ برسولک الذی أرسلت‘‘ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا جو اصل منصب ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نبی ہیں اور نبی ہونے کے ساتھ رسول بھی ہیں وہ واضح نہیں ہوتا۔ ہم اپنی تفسیر’تدبر قرآن‘ میں نبی اور رسول کے لطیف فرق پر کماحقہ لکھ چکے ہیں۔ اسے ملاحظہ فرما لیجئے۔ اللہ تعالیٰ کا ہر پیغمبر نبی ہوتا ہے اور بعض نبی، نبی ہونے کے ساتھ ساتھ رسول بھی ہوتے ہیں۔ رسول کا منصب نبی سے بدرجہا بالاتر ہوتا ہے اس لئے کہ وہ اپنی قوم کے لئے عدالت بن کے آتا ہے، اس کے ہاتھوں بہرحال قوم کا فیصلہ ہو جاتا ہے۔ اگر اس کے انذار و تبشیر کو قبول نہیں کیا گیا تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ قوم تباہ کر دی جاتی ہے اور اگر قوم دعوت قبول کرتی ہے تو اسے لازماً غلبہ حاصل ہوتا ہے۔ نبی کے لئے ایسا ضروری نہیں ہے۔ اب یہاں ’’وَبِنَبِيِّكَ الذِي أَرسَلتَ‘‘ (اور تیرا وہ نبی جسے تو نے رسول بنا کے بھیجا) سے حضور کا اصل منصب واضح ہوتا ہے جبکہ ’’و برسولك الذي أرسلت‘‘ (اور تیرا وہ رسول جسے تو نے مبعوث فرمایا) میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اصل منصب کی وضاحت نہیں ہوتی۔ نیز اس صورت میں ’الذی أرسلت‘ کے الفاظ زائد ہو جاتے ہیں اور پہلی اور اصل صورت میں ان الفاظ میں معنی کا ایک سمندر آ جاتا ہے اور ان کی افادیت بھی واضح ہو جاتی ہے۔ یہ تو ایک مثال تھی جس میں خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک راوی کو اس کی غلطی پر متنبہ کیا۔ کیونکہ اس کی روایت سے معنی میں ایک ایسا فرق پیدا ہو گیا تھا جس سے فلسفہ دین کی تعبیر میں غلطی ہو جاتی الخ‘‘۔[1] جناب اصلاحی صاحب کی اس طویل تر عبارت میں جو چیزیں قابل مواخذہ محسوس ہوئی ہیں وہ حسب ذیل ہیں: 1- حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی مذکورہ بالا حدیث کو روایت بالمعنی کے باعث غلطی کی مثال کے طور پر پیش کرنا قطعاً غلط ہے کیونکہ اس حدیث کے بالمعنی مروی ہونے کا دعویٰ محتاج دلیل ہے۔ سونے کے وقت کی اس مشہور دعاء میں حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے جو غلطی سرزد ہوئی تھی وہ بالمعنی روایت کرنے کے باعث نہیں بلکہ دعا کو غلط یاد کر لینے کے باعث ہوئی تھی، جیسا کہ خود حدیث کے الفاظ ’’استذكرهن‘‘ سے واضح ہے۔ 2- جناب اصلاحی صاحب کا یہ دعویٰ بھی غلط ہے کہ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ کی مذکورہ غلطی سے اس کے
Flag Counter