Maktaba Wahhabi

350 - 363
’’يريد الاجتهاد في رد القضية من طريق القياس إلي معني الكتاب والسنة ولم يرد الرأي الذي يسنح له من قبل نفسه أو يخطر بباله من غير أصل من كتاب أو سنة الخ‘‘ [1] علامہ طیبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں یہ قول کہ ’’اجتهد رأئي‘‘ کے جو ہر لفظ میں مبالغہ قائم ہے اور اس کی بنیاد ’’افتعال، اعتمال، سعی اور بذل الوسع ہے‘‘۔ [2] علامہ راغب اصبہانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’جہد‘‘ طاقت و مشقت ہے اور اجتہاد نفس کو بذل طاقت کے ساتھ لینا نیز مشقت اٹھانا ہے۔ کہا جاتا ہے: ’’جهدت رأئي‘‘ اور ’’اجتهدت‘‘ یعنی ’’أتعبته بالفكر‘‘۔[3] صاحب ’’المجمع‘‘ فرماتے ہیں: ’’حدیث معاذ میں ’’اجتهد رأئي‘‘ مروی ہے۔ اس اجتہاد کا مطلب قیاس کے ذریعہ کتاب و سنت کے مطابق طلب امر میں بذل الوسع ہے‘‘۔ [4] حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’طلب امر میں بذل الجہد اجتہاد ہے اور اصطلاحاً حکم شرعی کی معرفت تک پہنچنے کے لئے بذل الوسع اجتہاد کہلاتا ہے‘‘۔ [5] علامہ ابو الولید محمد بن احمد المعروف بابن رشد القرطبی رحمہ اللہ (595ھ) مسکوت عنہ جزئی کی کڑی دلیل شرعی سے جوڑ دینے کو اجتہاد سے تعبیر کرتے ہیں، چنانچہ فرماتے ہیں: ’’و أما القياس الشرعي فهو إلحاق الحكم الواجب لشيء ما بالشرع بالشيء المسكوت عنه لشبهه بالشيء الذي أوجب الشرع له ذلك الحكم أو العلة جامعة بينهما ‘‘ [6] ’’(اجتہاد یا) قیاس شرعی اس کو کہتے ہیں کہ جو حکم شریعت میں کسی چیز کے لئے ثابت ہو چکا ہے اس حکم کو آپس میں مشابہت یا ان کے مابین علت جامعہ مشترک ہونے کے باعث اس چیز کے اوپر بھی چسپاں کیا جائے جو مسکوت عنہ ہو‘‘۔ نواب صدیق حسن خاں بھوپالی رحمہ اللہ کا قول ہے: ’’و اما قیاس پس در اصطلاح فقہاء: حمل معلوم بر معلوم است در اثبات حکم یا نفی او بامر جامع میان ہر دو از حکم
Flag Counter