Maktaba Wahhabi

349 - 363
انتہائی مجروح راوی ہے۔ امام دارقطنی رحمہ اللہ نے اسے ’’متروک‘‘ قرار دیا ہے۔ امام ابوداود السجستانی رحمہ اللہ نے اس کی موت پر اس کی نماز جنازہ پڑھنی گوارہ نہ کی تھی۔ آپ فرماتے تھے: ’’أخشي أن يكون دجال بغداد‘‘ امام ابن عدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ وہ کہا کرتا تھا: ’’ہم نے عوام کے دلوں کو پگھلانے اور نرم کرنے کے لئے احادیث گھڑی ہیں‘‘۔ ابن عدی رحمہ اللہ کا قول ہے ’’أمره بين‘‘ امام ابو احمد الحاکم رحمہ اللہ کا قول ہے: ’’أحاديثه كثيرة لا تحصي كثرة وهو بين الأمر في الضعف‘‘ امام ابن الجوزی ’’التحقیق‘‘ میں فرماتے ہیں: ’’وہ جھوٹا تھا اور حدیثیں گھڑا کرتا تھا‘‘۔ ابو حاتم رحمہ اللہ کا قول ہے: ’’روي أحاديث مناكير عن شيوخ مجهولين ولم يكن عندي ممن يفتعل الحديث وكان رجلا صالحا‘‘ ملا طاہر پٹنی گجراتی فرماتے ہیں: ’’کبار وضاعین میں سے تھا‘‘۔ تفصیلی ترجمہ کے لئے حاشیہ [1] کے تحت درج شدہ کتب کی طرف مراجعت مفید ہو گی۔ پس یہ حدیث بھی ’’موضوع‘‘ ہونے کے باعث قطعاً ناقابل احتجاج قرار پائی۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی اس من گھڑت حدیث سے مطلب اخذ کرتے ہوئے جناب اصلاحی صاحب نے یہ جو فرمایا ہے کہ ’’بات راوی کے اعتماد پر چھوڑنی پڑے گی۔ وہی فیصلہ کرے گا کہ میں مطلب ادا کر پایا ہوں یا نہیں‘‘۔ تو میں کہتا ہوں کہ یہ معاملہ صرف روایت بالمعنی کی صورت کے لئے ہی خاص نہیں ہے بلکہ روایت باللفظ کی صورت میں بھی معاملہ راوی کے اعتماد پر ہی چھوڑنا پڑے گا کہ میں بلا تقدیم و تاخیر اور زیادتی و نقص بعینہ وہی الفاظ ادا کر پایا ہوں یا نہیں؟ پھر یہ کوئی اجتہاد کی بات بھی نہیں جیسا کہ جناب اصلاحی صاحب نے فرمایا ہے، بلکہ راوی کے اپنے حافظہ پر یقین و اطمینان، خود اعتمادی اور شعور عامہ (Common Sense) کی بات ہے۔ ’’اجتہاد‘‘ دراصل ایک شرعی اصطلاح ہے جسے عرف عام میں ’’قیاس‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ کسی مجتہد کو اجتہاد کی ضرورت اس وقت پیش آتی ہے جب کسی مسئلہ کی نسبت حدیث میں حکم بصراحت موجود نہ ہو، یا حکم ہو تو لیکن دوسری حدیثیں اس کے معارض ہوں۔ علامہ ابن الاثیر رحمہ اللہ ’’النہایۃ‘‘ میں اجتہاد کی تعریف یوں بیان فرماتے ہیں: ’’اجتہاد دراصل طلب امر میں بذل الوسیع ہے جو جہد طاقت سے افتعال ہے اور اس سے مراد یہ ہے کہ حاکم کے پاس جو مقدمہ پیش ہو اسے وہ کتاب و سنت کی طرف بطریق قیاس لوٹائے اور ایسی رائے کو جو محض اس کی اپنی شخصی رائے ہو اور وہ کتاب و سنت پر محمول بھی نہ ہو اس کی طرف نہ لوٹائے‘‘۔[2] علامہ خطابی رحمہ اللہ ’’معالم السنن‘‘ میں فرماتے ہیں:
Flag Counter