Maktaba Wahhabi

351 - 363
یا صفت و اختیارہ جمہور المحققین‘‘۔ [1] ’’اور جو قیاس ہے تو وہ فقہاء کی اصطلاح میں معلوم کا معلوم پر حمل ہے، حکم کے اثبات یا نفی میں، یا حکم اور صفت ہر دو کے مابین امر جامع کے ساتھ، اور اس کو جمہور محققین نے اختیار کیا ہے‘‘۔ ’’اجتہاد‘‘ کے متعلق مشہور علمائے حنفیہ میں سے ملا جیون فرماتے ہیں: ’’تقدير الفرع بالأصل في الحكم والعلة‘‘ [2] ’’حکم اور علت میں فرع کو اصل کے مطابق کرنا‘‘۔ ’’حسامی‘‘ میں ہے: ’’إذ أخذوا حكم الفرع من الأصل سموا ذلك قياسا لتقديرهم الفرع بالأصل في الحكم والعلة‘‘ [3] ’’فقہاء جب فرع کا حکم اصل سے نکالتے ہیں تو اس کو قیاس کہتے ہیں کیونکہ اس صورت میں وہ حکم اور علت کے معاملہ میں فرع کا اندازہ اصل کے ساتھ لگا لیتے ہیں‘‘۔ ’’التوضیح مع التلویح‘‘ میں ہے: ’’رد الشيء إلي نظيره أي الحكم علي الشيء بما هو ثابت لنظيره‘‘ [4] ’’کسی چیز کو اس کی نظیر کی طرف پھیرنا یعنی جو حکم اس کی نظیر کا ہے وہی حکم اس شئ کا قرار دینا‘‘۔ اور جناب تقی الدین امینی صاحب فرماتے ہیں: ’’فقہاء کی اصطلاح میں علت کو مدار بنا کر کسی سابقہ فیصلہ اور نظیر کی روشنی میں نئے مسائل حل کرنے کو قیاس (یا اجتہاد کہتے ہیں)‘‘۔ [5] (اس بارے میں مزید تفصیلی بحث ان شاء اللہ باب ششم (اخبار آحاد کی حجیت) کے تحت پیش کی جائے گی۔) اجتہاد کی مذکورہ بالا ان تمام تعریفات کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ راوی کو کوئی بھی حدیث بیان کرتے وقت اس کے صحیح اور پورے مطلب کی ادائیگی کا یقین ہونا اجتہادی یا قیاسی امر نہیں ہے جیسا کہ جناب اصلاحی صاحب نے سمجھا ہے، بلکہ اس کا اپنی یادداشت و حافظہ پر کلی اعتماد اور ادائیگی مدعاء پر اس کے اطمینان و یقین کا معاملہ ہے، اور ظاہر ہے کہ ان تمام چیزوں کا تعلق براہ راست حسیات اور شعور عامہ سے ہے۔ جناب اصلاحی صاحب نے ’’روایت بالمعنی کی مشروط اجازت‘‘ کے اختتام پر تمام بحث کا نچوڑ ان الفاظ میں
Flag Counter