Maktaba Wahhabi

340 - 363
6- ایک مرتبہ امام شافعی رحمہ اللہ کو امام مالک رحمہ اللہ کی ایک روایت کے متعلق شک ہو گیا تو فرمایا کہ: ’’أنا شككت وقد قرأته علي مالك صحيحا لاشك فيه ثم طال علي الزمان ولم أحفظ حفظا فشككت في جاريتي أو خازني و غيري يقول عنه خازني‘‘ [1] یعنی ’’میں نے امام مالک رحمہ اللہ سے یہ حدیث صحیح طریقہ پر بلاشک حاصل کی تھی لیکن ایک طویل مدت گزر جانے پر مجھے یہ ٹھیک سے یاد نہ رہی، پس مجھے یہ شک لاحق ہو گیا ہے کہ حدیث کے الفاظ ’’حتي يأتي خازني من الغابة‘‘ تھے یا ’’جاريتي من الغابة‘‘ میرے علاوہ دوسرے لوگ کہتے ہیں کہ ’’خازنی‘‘ مروی ہے۔ 7- حضرت شعبہ رحمہ اللہ نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث یوں روایت کی کہ آں رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے: ’’يبدأ أحدكم فيتشهد ثم يحمد اللّٰه و يمجده و يثني عليه بما هو له أهل ثم يصلي علي النبي صلي اللّٰه عليه وسلم و آله وسلم ثم يسأل لنفسه‘‘ پھر فرمایا: ’’لیکن میری کتاب میں ’’ثم يصلي علي النبي صلي اللّٰه عليه و آله وسلم‘‘ ساقط ہے لیکن میرے حافظہ کے مطابق ایسا ہی ہے‘‘۔ [2] اس طرح کے اور بہت سے اقوال کتب احادیث اور کتب مصطلحات میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ ضبط الفاظ کی ان احتیاطی تدابیر کے علاوہ ہم دیکھتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، تابعین رحمہم اللہ، اتباع تابعین اور محدثین رحمہم اللہ وغیرہم کو اگر کبھی روایت بالمعنی کی ضرورت پیش آ جاتی تو وہ حدیث بیان کرنے کے بعد ’’أو كما قال‘‘، ’’أو نحوه‘‘، ’’أو شبهه‘‘، ’’أو ما أشبه‘‘، ’’أو مثله‘‘ اور ’’أو شكله‘‘ وغیرہ جیسے الفاظ بھی فرمایا کرتے تھے، چنانچہ حافط عراقی، سخاوی، سیوطی اور جمال الدین قاسمی وغیرہم رحمہم اللہ فرماتے ہیں: ’’راوی اگر بالمعنی روایت کرے تو اسے حدیث کے اختتام پر ’’أو كما قال، أو نحوه، أو شبهه، أو ما أشبه هذا‘‘ وغیرہ جیسے الفاظ استعمال کرنے چاہئیں۔ صحابہ کرام کی ایک جماعت روایت بالمعنی میں موجود زلل کے خطرات کے پیش نظر خوف کھاتے ہوئے ایسا کہا کرتی تھی، حالانکہ صحابہ کرام ارباب اللسان اور تمام مخلوق میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام کے معانی کو سب سے زیادہ جاننے والے تھے‘‘۔ [3]
Flag Counter