Maktaba Wahhabi

338 - 363
روایت حدیث کے سلسلہ میں صحابہ کرام، تابعین، اتباع تابعین اور محدثین کرام کی غایت درجہ احتیاط و امانت کے اہتمام کا اندازہ حزم و احتیاط کے ان کلمات سے بھی ہو سکتا ہے جو حدیث کے الفاظ میں شک پیدا ہو جانے کی صورت میں ان سے منقول ہیں، مثال کے طور پر: 1- حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی ایک حدیث میں لفظ ’’عشاء‘‘ تھا یا ’’عتمة‘‘ دو مختلف راویوں سے یہ دونوں الفاظ مروی ہیں، لہٰذا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے الفاظ کی تعبیر میں ائمہ حدیث نے احتیاطاً دونوں الفاظ روایت کر دئیے ہیں، اگرچہ ان دونوں لفظوں کے معنی ایک ہی ہیں، چنانچہ صحیح بخاری میں ہے: ’’اعتم النبي صلي اللّٰه عليه وسلم بالعشاء‘‘ یا ’’اعتم النبي صلي اللّٰه عليه وسلم بالعتمة‘‘ [1] 2- حضرت انس رضی اللہ عنہ سے ایک موقع پر منقول ہے: ’’ومعنا عكازة أو عصا‘‘ [2]حالانکہ دونوں الفاظ کے معنی لاٹھی ہی کے ہیں لیکن ضبط الفاظ میں احتیاط کے پیش نظر دونوں الفاظ کو ’’أو‘‘ بمعنی ’’یا‘‘ کے ساتھ بیان کر دیا گیا ہے۔ 3- جریر بن عبداللہ نے ’’لا تضامون أو لا تضاهون‘‘ [3] دونوں الفاظ کو احتیاطاً نقل کیا ہے حالانکہ دونوں الفاظ میں معنوی اعتبار سے کوئی فرق نہیں ہے۔ 4- سترہ کے بارے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے جو حدیث مروی ہے اس میں صرف اربعین یعنی چالیس کا لفظ وارد ہے لیکن اس چالیس سے مراد کیا ہے، اس کی تعیین مروی نہیں ہے، لہٰذا امام بخاری رحمہ اللہ نے ابو النصر کا یہ قول نقل فرمایا ہے: ’’قال لا أدري أربعين يوما أو شهرا أو سنة‘‘ [4] یعنی ’’مجھے معلوم نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چالیس دن فرمایا یا چالیس ماہ یا چالیس سال‘‘۔ 5- حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: ’’سمعت النبي صلي اللّٰه عليه وسلم يقول يكون اثنا عشر أميرا فقال كلمة لم أسمعها فقال أبي إنه قال كلهم من قريش‘‘ [5] یعنی ’’میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ بارہ امیر ہوں گے۔ اس کے بعد بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ فرمایا لیکن میں اسے نہ سن پایا۔ پس میرے والد نے مجھے بتایا کہ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ وہ سب امیر قریش سے ہوں گے‘‘۔
Flag Counter