آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ آں رضی اللہ عنہ نے آخری دو سورتوں کو بالمعنی کس طرح موسوم کیا ہے۔ [1]
تابعی زرارہ بن اوفی رضی اللہ عنہ کا قول ہے:
’’لقيت أناسا من الصحابة فاجتمعوا في المعني واختلفوا علي في اللفظ فقلت ذلك لبعضهم فقال لا بأس به مالم يخل معناه‘‘ [2]
شعیب بن الحجاب سے مروی ہے کہ میں اور غیلان بن جریر حضرت حسن کے پاس پہنچے اور ہم نے کہا:
’’يا أبا سعيد، الرجل يحدث بالحديث فيزيد فيه أو ينقص منه قال إنما الكذب علي من تعمد ذلك‘‘ [3]
یعنی ’’اے ابو سعید! ایک شخص حدیث بیان کرتے ہوئے اس میں کچھ اضافہ یا کمی کر دیتا ہے، تو آں رحمہ اللہ نے فرمایا کہ کذاب کا الزام تو اس پر عائد ہوتا ہے جو ارادتاً ایسا کرے‘‘۔
جریر بن حازم سے مروی ہے:
’’سمعت الحسن يحدث بأحاديث الأصل واحد والكلام مختلف‘‘ [4]
یعنی ’’میں نے حسن کو احادیث بیان کرتے ہوئے سنا ہے، ان کی اصل تو ایک ہی لیکن کلام مختلف ہوتا تھا‘‘۔
ایک شخص نے حضرت حسن سے کہا: ’’يا أبا سعيد! إنما تحدث بالحديث أنت أحسن له سياقا و أجود تحبيرا و أفصح به لسانا منه إذا حدثنا به‘‘ تو انہوں نے جواباً فرمایا:
’’إذا أصبت المعني فلا بأس بذلك‘‘ [5]
یعنی ’’جب مطلب صحیح ادا ہو جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے‘‘۔
اسی طرح جب حضرت حسن سے روایت بالمعنی کے متعلق عبداللہ بن سلیمان، اکیمہ اللیثی کی روایت (جس کا تذکرہ ان شاء اللہ آگے باب کے حصہ دوم میں آئے گا) بیان کی گئی تو آں رحمہ اللہ نے فرمایا:
’’لولا هذا ما حدثنا‘‘ [6]
علامہ خطیب بغدادی رحمہ اللہ نے روایت بالمعنی کی تائید میں حضرت حسن کے بہت سے اقوال نقل کئے ہیں جن میں سے چند کا ماحصل یہ ہے:
|