عسي أن لا نكون سمعناها منه إلا مرة واحدة، حسبكم إذا حدثناكم بالحديث علي المعني‘‘ [1]
’’اے ابو الأسقع ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی ایسی حدیث سنائیے جو آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے خود سنی ہو اور جس میں نہ کوئی وہم ہو نہ اضافہ اور نہ بھول چوک۔ انہوں نے دریافت کیا: کیا تم میں سے کسی نے قرآن میں سے کچھ پڑھا ہے؟ ہم نے جواب دیا: ہاں، لیکن ہم اس کے بہترین حافظ نہیں ہیں۔ کبھی ہم سے اس میں واؤ اور الف بڑھ جاتا ہے یا کم ہو جاتا ہے۔ انہوں نے فرمایا: یہ وہ قرآن ہے جو کہ تمہارے سامنے کتابی حالت میں موجود ہے مگر تم اس کی تلاوت میں بھی محافظت نہیں کرتے اور خود تمہارا دعویٰ ہے کہ تم اس میں کمی یا زیادتی کر دیتے ہو تو احادیث میں یہ کیسے ممکن ہے کہ جنہیں ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے اور وہ بھی صرف ایک بار ہی سنا ہے۔ پھر فرمایا: اگر ہم حدیث کا مطلب بیان کر دیں تو کافی سمجھو‘‘۔
’’المدخل‘‘ اور ’’تاریخ لابن عساکر‘‘ وغیرہ میں حضرت جابر بن عبداللہ سے مروی ہے کہ حذیفہ کا قول ہے:
’’إنا قوم عرب نورد الأحاديث فنقدم و نؤخر‘‘ [2]
ابو نضرہ، حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں:
’’كنا نجلس إلي النبي صلي اللّٰه عليه وسلم عسي أن تكون عشرة نفر نسمع الحديث فما منا اثنان يؤديانه غير أن المعني واحد‘‘ [3]
ہشام بن عروہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے مجھ سے فرمایا:
’’يا بني إنه يبلغني أنك تكتب عني الحديث ثم تعود فتكتبه فقلت لها أسمعه منك علي شيء ثم أعود أنا فأسمعه علي غيره فقالت هل تسمع في المعني خلافا؟ قلت لا، قالت: لا بأس بذلك‘‘ [4]
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’كان رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم يوتر بسَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى وقُل لِّلَّذِينَ كَفَرُوا واللّٰه الواحد الصمد ‘‘ [5]
|