’’وجاء الجواز عن غير واحد من الصحابة وعن بعض التابعين الخ‘‘ [1]
علامہ محمد جمال الدین قاسمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’مشہور صحابہ کرام اور بیشتر تابعین کا یہ موقف رہا ہے کہ سیاق حدیث کی علی اللفظ روایت کے ساتھ بالمعنی روایت بھی جائز ہے، چنانچہ اس ضمن میں صحابہ کرام میں سے حضرت علی، ابن عباس، انس بن مالک، واثلہ بن الأسقع، اور ابو ہریرہ وغیرہم اور کبار تابعین میں سے امام الائمہ حسن بصری، شعبی، عمرو بن دینار، ابراہیم النخعی، مجاہد اور عکرمہ وغیرہم کے اسمائے گرامی مختلف کتب سیر وغیرہ میں مذکور ہیں‘‘۔[2]
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے متعلق عتاب مولی ہرمز کی روایت میں ہے کہ میں نے حضرت انس رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے:
’’لولا أني أخشي أن أخطئ لحدثتك بأشيائ قالها رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم‘‘ [3]
اس قول میں یہ اشارہ ملتا ہے کہ آں رضی اللہ عنہ صرف وہی احادیث روایت فرماتے تھے جو محقق ہوتی تھیں اور جن کے بارے میں شک ہوتا تھا انہیں ترک فرما دیتے تھے۔ اس حدیث سے بعض لوگوں نے یہ سمجھا ہے کہ آں رضی اللہ عنہ صرف روایت باللفظ کی محافظت فرماتے تھے جیسا کہ قول ’’لولا۔۔أخطئ‘‘ میں اشارہ پایا جاتا ہے لیکن صرف روایت باللفظ کو درست سمجھنے اور روایت بالمعنی سے منع فرمانے کی نسبت آں رضی اللہ عنہ کی جانب درست نہیں ہے، چنانچہ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’یہ بات محل نظر ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت بالمعنی کا جواز معروف ہے جیسا کہ خطیب رحمہ اللہ نے ان کے متعلق صریحاً نقل کیا ہے اور خود آں رضی اللہ عنہ کی روایات میں بالمعنی مروی احادیث ملتی ہیں مثلاً بسملہ کے بارے میں حدیث، وضو کے وقت تکثیر الماء کا قصہ، اسی طرح تکثیر الطعام کا قصہ وغیرہ‘‘۔[4]
امام بیہقی رحمہ اللہ نے مکحول سے روایت کی ہے کہ: میں اور ابو ازہر واثلہ بن الأسقع رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور عرض کیا کہ:
’’يا أبا الأسقع حدثنا حديثا سمعته من رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم ليس فيه وهم ولا مزيد ولا نسيان، فقال: هل قرأ أحد منكم من القرآن شيئا؟ فقلنا: نعم وما نحن له بحافظين جدا، إنا لنزيد الواو والألف و ننقص قال: فهذا القرآن مكتوب بين أظهركم لا تألونه حفظا و أنتم تزعمون أنكم تزيدون و تنقصون فكيف بأحاديث سمعناها من رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم،
|