Maktaba Wahhabi

268 - 363
امام علی بن مدینی رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے یحییٰ بن سعید القطان سے کہا کہ عبدالرحمان بن مہدی فرماتے ہیں: ’’میں نے اہل الحدیث میں سے ان تمام کو ترک کر دیا ہے جو اپنی بدعت کے رأس (سرے یا چوٹی) پر تھے۔ یہ سن کر یحییٰ بن سعید ہنسے اور پوچھا: پھر انہوں نے قتادہ، عمر بن ذرھمدانی اور ابن ابی رواد وغیرہم کے ساتھ کیا معاملہ کیا؟ یحییٰ بن سعید رحمہ اللہ نے اسی طرح مزید ایک جماعت کے نام گنوائے اور کہا: اگر عبدالرحمان بن مہدی نے اس قسم کے لوگوں کو بھی ترک کیا ہے تو حدیث کا ایک بہت بڑا حصہ چھوڑ دیا ہے۔‘‘ [1] امام ذہبی اور امام سخاوی رحمہما اللہ نے بھی اس حقیقت کو یوں بیان فرمایا ہے: ’’بدعت صغریٰ مثلا غلو فی التشیع یا تشیع بلا غلو و بلا تحرف۔ پس یہ چیز تابعین اور اتباع تابعین میں دینداری، ورع اور صدق کے باوجود بکثرت موجود تھی۔ پس اگر ان سب کی احادیث رد کر دی جائیں تو تمام آثار نبوی ہمارے ہاتھوں سے چلا جائے گا اور دین میں یہ ایک بین فساد و نقصان ہو گا۔‘‘ [2] پس جناب اصلاحی صاحب کا یہ فرمانا کیوں کر درست ہو سکتا ہے کہ ’’ہمارے نزدیک اہل بدعت کی روایات قبول کرنے کی گنجائش فتنوں کا دروازہ کھولنے کے مترادف ہے اور ماضی میں اس کا باعث بنی ہے‘‘ – اگر جناب اصلاحی صاحب پھر بھی اس بات پر مصر ہوں کہ محدثین کرام نے غیر داعی، غیر مضر، متقی، متورع، صادق، عادل، ضابط اور حافظ مبتدعین کی روایات کو تحقیق و تنقیح اور تثبت و تبین کے بعد قبول کر کے فتنوں کا دروازہ کھول دیا ہے یا محدثین کی یہی روایات ماضی میں فتنوں کا باعث بنی ہیں تو ہم اس کو جناب اصلاحی صاحب کی فہم کا قصور سمجھتے ہوئے مزید کلام سے گریز کرتے ہیں۔ اس ضمن میں جناب اصلاحی صاحب کے آخری قول کہ ’’مجرد کسی کا مبتدع ہونا اس کے ساقط الروایہ ہونے کے لئے کافی ہے۔ اور ان فرقوں میں سے کسی کی روایت قابل قبول نہیں ہونی چاہیے خواہ وہ قسم کھا کے روایت کرے کہ میں سچ ہی روایت کروں گا۔ ہمارے نزدیک یہی صحیح مسلک ہے جو قرآن و سنت کے مطابق ہے‘‘ – کے جواب میں ہم امام نووی اور خطیب بغدادی رحمہما اللہ کے مندرجہ ذیل اقوال پیش کرنے پر اکتفا کرتے ہیں: امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’أما المذهب الأول فضعيف جدا ففي الصحيحين وغيرهما من كتب الحديث الاحتجاج بكثيرين من المبتدعين غير الدعاة ولم يزل السلف والخلف علي قبول الرواية منهم والاحتجاج بها والسماع منهم و إسماعهم من غير إنكار منهم‘‘ [3]
Flag Counter