’’الإرجاء مذهب لعدة من جلة العلماء لا ينبغي التحامل علي قائله‘‘ [1]
علامہ شہرستانی سے بھی ایسا ہی ایک قول منقول ہے۔ [2] ابو الولید الطیالسی فرماتے ہیں کہ شعبہ نے بیان کیا:
’’قتادہ نے ابو حسان الأعرج سے حدیث روایت کی ہے حالانکہ وہ حروری تھا۔‘‘ [3]
محدثین کرام نے مبتدعین میں سے اکثر اسی طبقہ کی روایات کو قبول کیا ہے لہٰذا میں نہیں سمجھتا کہ ان کی روایات کو قبول کرنے میں کوئی امر مانع ہو سکتا ہے۔ جہاں تک جناب اصلاحی صاحب کے اس قول کا تعلق ہے کہ: ’’اب اگر کسی کو ان فرقوں کے ساتھ صلح کل کے فلسفے کو نبھانا اور بھائی چارہ اور دوستی کو قائم کرنا ہو تو وہ ضرور ایسا کرے، لیکن دین کے معاملے میں اس باطل فلسفے کو راہ نہیں دی جا سکتی‘‘ – تو یہ بھی محض عصر حاضر یا ماضی قریب کے چند پرفریب نعروں کے پس منظر میں کہا گیا ہے۔ اسلاف اور محدثین کرام کے زمانہ میں اس فلسفہ کا کوئی وجود تک نہ تھا۔ اگر جناب اصلاحی صاحب یہ سمجھتے ہیں کہ محدثین کرام نے محض ان فرقوں کے ساتھ صلح کل یا دوستی اور بھائی چارہ کی فضا قائم کرنے کے لئے ان کی روایات کو قبول کیا تھا تو ان کا یہ خیال بلا دلیل قطعی، لغو اور انتہائی عبث ہے کیونکہ اس سے جہاں محدثین کرام کے امت محمدیہ پر عظیم احسانات کا ابطال ہوتا ہے وہیں ان کی تمام مساعی جمیلہ و جلیلہ اور ان کے اخلاص پر صریح طعن بھی واقع ہوتا ہے جو کہ کسی طرح درست اور مناسب نہیں، پھر اس سے جناب اصلاحی صاحب کا حقائق سے لاعلم ہونا بھی ظاہر ہوتا ہے کیونکہ واقعہ یہ ہے کہ اگر محدثین غیرن مضر مبتدعین کی روایات کو بھی علی الاطلاق رد کر دیتے تو امت احادیث نبوی کے ایک بڑے ذخیرہ سے تہی دست ہو جاتی۔ امام ابن حبان رحمہ اللہ نے اس حقیقت کی طرف یوں اشارہ فرمایا ہے:
’’علماء کا یہ گروہ غیر دعاۃ مبتدعین کی روایات، سنت کی حفاظت کے پیش نظر قبول کرتا ہے۔ اگر ایسے مبتدع رواۃ کی تمام احادیث بلا امتیاز رد کر دی جائیں تو یہ تمام سنن کا ترک ہو گا اور ہمارے پاس بہت ہی مختصر سی احادیث پہنچ پائیں گی۔‘‘ [4]
حافظ ابن المدینی رحمہ اللہ کا قول ہے:
’’لو تركت أهل البصرة للقدر و تركت أهل الكوفة للتشيع لخربت الكتب‘‘ [5]
یعنی ’’اگر بصرہ والوں کو قدر کی وجہ سے اور کوفہ والوں کو تشیع کی وجہ سے ترک کر دیا جائے تو ساری کتابیں بیکار ویران ہو جائیں گی۔‘‘
|