اسی طرح اکثر علماء کے نزدیک چونکہ خوارج اپنی بدعت کے سبب مرتکب کفر نہیں ہیں (الصحيح عند الأكثرين أن الخوارج لا يكفرون ببدعتهم) [1]لہٰذا ان کی روایت مقبول ہے بلکہ ابوداود اور سلیمان بن الأشعث کا قول ہے:
’’اصحاب الأھواء میں خوارج سے زیادہ صحیح تر حدیث کسی کی نہیں ہوتی، پھر عمران بن حطان اور ابو حسان الأعرج کا ذکر فرمایا۔‘‘ [2]
بعض قدری رواۃ کے ثقہ ہونے کی صراحت بھی محدثین سے منقول ہے چنانچہ سلیمان بن احمد الواسطی فرماتے ہیں:
’’میں نے عبدالرحمٰن بن مہدی سے عرض کیا: میں نے آپ کو سنا ہے کہ آپ اس شخص سے بھی حدیث بیان کرتے ہیں جس سے حدیث روایت کرنا ہمارے اصحاب ناپسند کرتے ہیں۔ عبدالرحمٰن بن مہدی نے دریافت کیا: وہ کون ہے؟ میں نے عرض کیا محمد بن راشد الدمشقی۔ پوچھا کہ: کیوں ناپسند کرتے ہیں؟ میں نے عرض کیا: اس لئے کہ وہ قدری ہے۔ یہ سن کر آپ غصہ ہوئے اور فرمایا کہ اس کا قدری ہونا روایت حدیث کے لئے مضر نہیں ہے۔‘‘ [3]
سفیان ثوری رحمہ اللہ کا قول ہے:
’’ابن ابی لبید اہل مدینہ کے عباد میں سے تھا اور ثبت تھا اگرچہ قدری تھا۔‘‘ [4]
اور امام بیہقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ابراهيم بن محمد الأسلمي كان قدريا لكنه ثقة، فلذلك روي عنه الشافعي‘‘ [5]
یعنی ’’ابراہیم بن محمد اسلمی قدری لیکن ثقہ تھا، چنانچہ امام شافعی رحمہ اللہ نے اس سے روایت کی ہے۔‘‘
حسین بن الفرج بیان کرتے ہیں کہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے مجھ سے دریافت کیا:
’’عبداللہ کے اصحاب میں سے تمہارے پاس کون کون باقی بچا ہے؟ میں نے کہا: عبدان۔ آپ نے پوچھا: اس کا حال کیسا ہے؟ میں نے کہا: مذہب کے اعتبار سے وہ مرجئی مذہب کا حامل ہے۔ آپ نے فرمایا: اس کی حدیث لکھی جائے اگرچہ وہ مرجئی ہی ہو۔‘‘ [6]
اسی طرح مسعر بن کدام مرجئی کے ترجمہ میں امام ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
|