Maktaba Wahhabi

265 - 363
کرنے کا قائل نہیں ہے۔ ان کی روایات کو قبول کرنے کے بارے میں محدثین کرام نے کچھ نہ کچھ شرائط ضرور بیان کی ہیں تاکہ حق و باطل میں تمیز ممکن ہو سکے۔ محدثین کی ان شرائط کا آپس میں مختلف ہونا ہی بذات خود اس بات کی واضح دلیل ہے کہ وہ اس بارے میں حتی الوسع محتاط تھے، چنانچہ امام ذہبی رحمہ اللہ، ابراہیم بن الحکم بن ظہیر الکوفی شیعی کے ترجمہ میں لکھتے ہیں: ’’رافضہ کی روایت سے احتجاج کے بارے میں لوگوں کا اختلاف ہے، اس بارے میں تین اقوال یہ ہیں: (1) مطلقاً منع، (2) مطلقاً رخصت الا یہ کہ وہ دروغ گویا حدیث گھڑنے والا ہو (3) تفصیل یعنی صدوق رافضی کی روایات کو قبول کرنا جو حدیث کے مدلول کو جانتا ہو لیکن مبلغ رافضی کی روایت کو رد کرنا خواہ وہ صدوق ہی ہو، چنانچہ اشہب کا قول ہے کہ امام مالک رحمہ اللہ سے رافضہ کے متعلق سوال کیا گیا تو انہوں نے فرمایا: نہ ان سے کلام کرو اور نہ ان سے روایت لو کیونکہ وہ کذب بیانی کرتے ہیں۔حرملہ کا قول ہے کہ میں نے امام شافعی رحمہ اللہ کو کہتے ہوئے سنا کہ: ’’لم أر أشهد بالزور من الرافضة‘‘ اور مؤمل بن اھاب کا قول ہے: میں نے یزید بن ہارون کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ ہر صاحب بدعت سے حدیث لکھی جائے بشرطیکہ وہ رافضیت کا مبلغ نہ ہو کیونکہ وہ دروغ گو ہیں اور محمد بن سعید بن اصبہانی بیان کرتے ہیں کہ میں نے شریک کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ: ’’احمل العلم عن كل من لقيت إلا الرافضة فإنهم يضعون الحديث و يتخذونه دينا‘‘ [1] جناب اصلاحی صاحب نے شیعہ و روافض کے دین میں جھوٹ بولنے کے جس گروہی فریضہ (یعنی تقیہ) اور اپنے بدعتی مذہب کی نصرت و تائید میں روایات وضع کر لینے کی طرف اشارہ کیا ہے تو یہ تمام شیعہ و روافض کا شعار نہ تھا، بلکہ فقط رفض کامل اور رافضیت میں غلو کرنے والا طبقہ ہی ایسا کیا کرتا تھا لیکن محدثین میں سے کوئی بھی ایسا نظر نہیں آتا کہ جس نے اس طبقہ سے روایات کو قبول کرنا جائز سمجھا ہو۔ ہم دیکھتے ہیں کہ تابعین اور تبع تابعین میں سے متشدد اور معتدل شیعہ حضرات کی ایک بڑی تعداد ایسی تھی جو انتہائی ورع، دینداری، امانت، صداقت اور تقویٰ سے متصف تھی۔ حسین بن ادریس بیان کرتے ہیں کہ میں نے محمد بن عبداللہ بن حماد الموصلی سے علی بن غراب کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا: وہ صاحب بصیرت محدث تھا۔ میں نے پوچھا کہ کیا وہ ضعیف نہیں ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ وہ تشیع ضرور کرتا تھا، لیکن میں کسی ایسے محدث کی روایت ترک نہیں کرتا جو حدیث پر بصیرت رکھتا ہو اور تشیع یا قدر کی نصرت و حمایت کے لئے دروغ گوئی سے بھی دور ہو اور نہ ہی ایسے کسی شخص سے روایت لیتا ہوں جو حدیث پر نہ تو بصیرت رکھتا ہے اور نہ ہی اسے اس کی سمجھ ہے، خواہ وہ فتح الموصلی سے افضل ہی ہو۔‘‘ [2]
Flag Counter