اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ جنگ کرنے والوں پر کلام کیا کرتے تھے، مگر ان پر سب و شتم سے تعرض کرتے تھے۔ مگر ہمارے زمانے میں ہمارے نزدیک معروف غالی شیعہ وہ ہیں جو ان سادات کی تکفیر کرتے ہیں، شیخین پر تبرا کرتے ہیں، پس یہ گمراہ اور معثر ہیں۔‘‘
غالی روافض کے متعلق علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ جو سلف صالحین پر سب و شتم کرتا ہو اس کی روایت رد کی جائے گی، کیونکہ مسلمان پر سب و شتم کرنا فسق ہے، پس صحابہ اور سلف صالحین پر یہ بدرجہ اولیٰ فسق ہو گا۔‘‘ [1]
حافظ خطیب بغدادی رحمہ اللہ، ابن مبارک سے نقل کرتے ہیں:
’’سأل ابو عصمة أبا حنيفة فمن تأمرني أن أسمع الآثار؟ قال: من كل عدل في هواه إلا الشيعة فإن أصل عقدهم تضليل أصحاب محمد صلي اللّٰه عليه وسلم ومن أتي السلطان طائعا أما إني لا أقول: إنهم يكذبونهم أو يأمرونهم بما لا ينبغي ولكن وطأوالهم حتي انقادت العامة بهم فهذان لا ينبغي أن يكونا من أئمة المسلمين‘‘ [2]
ہم دیکھتے ہیں کہ محدثین میں سے علی بن مدینی رحمہ اللہ نے ابو اسرائیل الملائی کی حدیث فقط اس وجہ سے رد کی تھی کہ وہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا ذکر برائی کے ساتھ کرتا تھا اور اس کے ساتھ حدیث میں بھی قوی نہ تھا۔ [3] اسی طرح حسین بن واقد الصدی کو بھی جب آں رحمہ اللہ نے حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما پر سب و شتم کرتے ہوئے سنا تو اس کو ترک کر دیا تھا۔ [4] عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ نے تو رؤوس الاشھاد فرمایا تھا کہ:
’’دعوا حديث عمرو بن ثابت فإنه كان يسب السلف‘‘ [5]
یعنی ’’عمرو بن ثابت کی حدیثیں چھوڑ دو کیونکہ وہ سلف یعنی صحابہ کرام کو گالیاں دیا کرتا تھا۔‘‘
اسی طرح آں رحمہ اللہ نے علی بن الحسن بن شفیق کے استفسار پر کہ – حدیث بیان کرتے وقت آپ عمرو بن عبید کا نام نہیں لیتے جبکہ دوسرے قدریوں کا نام لیتے ہیں۔ جواباً فرمایا تھا: ’’لأن هذا كان رأسا‘‘ [6]
اور حافظ ابو عبداللہ بن الأخرم بیان کرتے ہیں کہ کسی نے سوال کیا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے ابو طفیل عامر بن واثلہ کی حدیث کیوں ترک فرمائی ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ وہ تشیع میں افراط و تفریط سے کام لیتا تھا۔‘‘ [7]
دوسری بات یہ کہ محدثین میں سے کوئی بھی شیعہ اور روافض کی تمام روایات کو مطلقاً اور بلا تمیز و تحقیق قبول
|