Maktaba Wahhabi

263 - 363
جائے گی۔‘‘ [1] اور امام ذہبی رحمہ اللہ، ابان بن تغلب الکوفی شیعی کے ترجمہ میں لکھتے ہیں کہ کوئی شخص اہل بدعت کی ثقاہت و عدالت کے متعلق یہ سوال کر سکتا ہے۔ ’’كيف ساغ توثيق مبتدع و حد الثقة العدالة والإتقان؟ فكيف يكون عدلا من هو صاحب بدعة؟‘‘ تو اس کا جواب یہ ہے کہ: ’’ان البدعة علي ضربين: فبدعة صغري كغلو التشيع أو كالتشيع بلا غلو ولا تحرف – فهذا كثير في التابعين و تابعيهم مع الدين والورع والصدق – فلو رد حديث هؤلاء لذهب جملة من الآثار النبوية وهذه مفسدة بينة‘‘ [2] یعنی ’’بدعت کی دو قسمیں ہیں: بدعت صغری: مثلاً غلو تشیع یا تشیع بلا غلو و بلا تحرف۔ یہ چیز تابعین اور تبع تابعین کے عہد میں، دین و ورع اور صدق کے باوجود بکثرت موجود تھیں۔ پس اگر ان سب کی احادیث رد کر دی جائیں تو تمام آثار نبویہ سے ہاتھ دھونا پڑے گا، جو کہ ایک واضح دینی خسارہ اور فساد ہو گا۔ دوسری قسم بدعت کبریٰ ہے: مثلا رفض کامل اور غلو فی الرفض، حضرت ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما پر تبرا بھیجنا، اس کی تبلیغ کرنا، پس اس گروہ سے تعلق رکھنے والوں کے ساتھ کوئی حجت نہیں ہے۔ اس گروہ کا کوئی شخص نہ صادق ہو سکتا ہے اور نہ مامون بلکہ کذب ان کا شعار اور تقیہ و نفاق ان کا دثار ہے۔ پس ان لوگوں سے منقول روایات کو کس طرح قبول کیا جا سکتا ہے۔ حاشا و کلا! پس اسلاف کے زمانہ میں اور ان کے نزدیک معروف غالی شیعہ وہ تھے جو حضرات عثمان رضی اللہ عنہ، زبیر رضی اللہ عنہ، طلحہ رضی اللہ عنہ، معاویہ رضی اللہ عنہ
Flag Counter