بدعت کے گروہ سے مروی ہونا ہی اس کے ضعف کے لئے کافی ہونے والے قول کا تعلق ہے تو اگر جناب اصلاحی صاحب شہادت کی آیتوں سے اس پر استدلال کرنا چاہیں تو ہم کہیں گے کہ خبر اور شہادت میں احکام کے اعتبار سے فرق ہے اور اگر سورۃ الحجرات کی آیت [يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَن تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَىٰ مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ] [1] (یعنی اے ایمان والو! اگر تمہارے پاس کوئی فاسق آدمی خبر لائے تو خوب تحقیق کر لیا کرو، کبھی کسی قوم کو نادانی سے کوئی نقصان نہ پہنچا دو، پھر اپنے کئے تمہیں پر پچھتانا پڑے) سے استدلال کریں تو ہم کہیں گے کہ اس میں بھی توقف اور تبین و تثبت کا حکم دیا گیا ہے، كما هو منقول عن ابن تيمية في’’فتح الملهم ‘‘[2]وكذا قيل في مقدمة’’فضل الباري‘‘[3]، کہ صدق و کذب کے دلائل دیکھ کر اس کے تقاضہ کے مطابق ردوقبول کیا جائے اور یہی تو محدثین کرام کیا کرتے ہیں۔ پس اعتراض خود قرآن و حدیث کے عمومی مزاج اور تقاضوں سے لاعلمی پر مبنی ثابت ہوا۔
جناب اصلاحی صاحب نے اپنے دعویٰ کی تائید میں جو دلیل پیش فرمائی ہے وہ یہ ہے کہ شیعہ اور روافض ’’چونکہ اصل دین سے انحراف پر قائم ہیں، (لہٰذا) اپنے مذہب کو ثابت کرنے کی خاطر جب تک یہ اصل دین میں جھوٹ نہ بولیں، تو اپنا گروہی فریضہ ادا نہیں کرتے۔ انہیں اپنی بدعت کے حق میں دلیل فراہم کرنے کے لئے روایات کے سہارے کی ضرورت پڑتی ہے لہٰذا ان کے لئے روایات میں خیانت کے سوا کوئی چارہ نہیں (رہتا) الخ‘‘ – جناب اصلاحی صاحب کا یہ دعویٰ بھی حقائق سے لاعلمی کی بنیاد پر قائم ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ جناب اصلاحی صاحب نے یہاں متقدمین شیعہ کو متأخرین شیعہ پر قیاس کر لیا ہے حالانکہ شیعہ کے ان دونوں طبقات کے مابین زمین و آسمان کا بعد ہے، پھر ہر شیعہ رافضیت میں متشدد اور غالی بھی نہیں ہوتا، چنانچہ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’عرف متقدمین میں تشیع حضرت علی رضی اللہ عنہ کی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ پر تفضیل کا اعتقاد اور یہ کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ جنگ میں برحق اور ان کا مخالف گروہ خطاء پر تھا، ہے۔ وہ شیخین کی تفضیل و تقدیم کے بھی قائل تھے، البتہ ان میں سے بعض یہ اعتقاد بھی رکھتے تھے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد افضل الخلق ہیں۔ اگر کوئی راوی ان چیزوں کا معتقد ہو مگر ساتھ ہی ورع، دین، صدق اور اجتہاد سے متصف بھی ہو تو اس کی روایت محض اس تشیع کی بنیاد پر رد نہیں کی جائے گی کیونکہ وہ غیر مبلغ ہے۔
پس جو حضرت علی کو حضرات ابوبکر و عمر پر مقدم ٹھہرائے وہ تشیع میں غالی ہے۔ اس پر رافضی ہونے کا اطلاق ہو گا ورنہ وہ شیعہ ہے۔ پس اگر تبرا یا بغض کی تصریح موجود ہو تو یہ عرف متأخرین میں تشیع ہے، یعنی رافضیت میں غالی۔ اور اگر دنیا میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی رجعت کا اعتقاد رکھتا ہو تو اس کا غلو شدید تر ہے پس ایسے غالی رافضی کی روایت قبول نہ کی
|