ناصبی وغیرہ ہے۔ باوجود اس کے کہ جو اقوال انہوں نے کسی سے نقل کئے ہیں افتراء پر مبنی تھے۔ اس امر پر یہ بات دلالت کرتی ہے کہ صحیحین کے رواۃ میں سے اکثر جن پر تشیع کی جرح کی گئی ہے ان کو شیعہ اصلاً جانتے بھی نہیں ہیں۔ خود میں نے رجال شیعہ کی کتاب ’’الکشی‘‘ اور ’’النجاشی‘‘ کی طرف مراجعت کی تو میں نے ان کتب میں ان رواۃ کو نہ پایا جن سے کہ شیخین نے تخریج کی ہے، اور سیوطی نے کتاب ’’التقریب‘‘ کی شرح میں جن پر اپنے اسلاف سے تشیع کی جرح نقل کی ہے۔ ان کی کل تعداد پچیس (25) ہے۔ رجال شیعہ کی کتب میں ایسے صرف دو راویوں کا تذکرہ ہی مجھے مل سکا ہے، وہ ابان بن تغلب اور عبدالملک بن أعین ہیں۔ باقی رواۃ کا ذکر مجھے ان کتابوں میں کہیں نہیں ملا۔ اس سے ہم کو یہ نیا اور اہم علمی فائدہ پہنچا ہے کہ مرمئ بدعت کے بارے میں تحقیق کے لئے اس فرقہ کی اصل تصانیف رجال کی طرف رجوع کیا جائے تاکہ اصیل و دخیل نیز معروف و منکر میں تمیز کی جا سکے۔‘‘ [1]
جناب اصلاحی صاحب نے منقولہ بالا عبارت میں بظاہر نہایت جوشیلے انداز میں سنت کو مبتدعین کی آلائشوں اور ضلالت سے محفوظ رکھنے کے وسائل پر روشنی ڈالی ہے لیکن اگر بغور دیکھا جائے تو اس میں بھی جا بجا خلاف واقعہ باتیں نظر آئیں گی، مثال کے طور پر فرماتے ہیں: -- از روئے قرآن، از روئے حدیث اور حدیث کے مجموعی مزاج کے تقاضے کے لحاظ سے مجرد اہل بدعت کے گروہ سے ہونا ضعف کے لئے کافی ہے اگرچہ راوی اپنی بدعت کا داعی نہ رہا ہو۔ لیکن یہ دعویٰ محض ایک دعویٰ بلا دلیل ہے۔ کیا جناب اصلاحی صاحب یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ محدثین کرام، کہ جن کی بدولت ہی آج احادیث نبوی کا موجودہ ذخیرہ ہمارے اور خود جناب اصلاحی صاحب کے پاس بھی پہنچا ہے وہ قرآن و حدیث کے ’’مجموعی مزاج‘‘ و تقاضوں سے بے بہرہ اور لاعلم تھے یا امت جو آج تک ان چیزوں کو درست مانتی چلی آئی ہے تو گویا وہ بھی اب تک اصلاحی صاحب کے تجویز کردہ قرآن و حدیث کے مجموعی مزاج و تقاضوں سے لاعلم ہونے کے باعث گمراہ نہیں تو کم از کم قعر جاہلیت میں ضرور پڑی ہوئی تھی، فإنا للہ و إنا الیہ راجعون۔
واضح رہے کہ غیر داعئ بدعت مبتدع کی ایسی روایت کہ جس سے اس کی بدعت کو تقویت نہ پہنچتی ہو، کو قبول کرنا ہی اکثر علماء کا پسندیدہ مذہب ہے، چنانچہ اس بارے میں امام ابن حبان کا دعویٰ اور امام احمد بن حنبل، امام مالک، امام ابو اسحاق ابراہیم بن یعقوب (استاذ امامین ابوداود و نسائی)، حافظ ابو الفتح القشیری، حافظ ابن الصلاح، حافظ زین الدین عراقی، حافظ ابن حجر عسقلانی، حافظ عماد الدین ابن کثیر، حافظ سخاوی، علامہ سیوطی، شاہ عبدالحق محدث دہلوی، علامہ احمد محمد شاکر اور علامہ عبدالرحمٰن مبارکپوری وغیرہم رحمہم اللہ کا اسے ’’مذہب مختار‘‘، ’’اصح‘‘ اور ’’أعدل‘‘ بیان کرنا گزشتہ صفحات میں گزر چکا ہے۔ جہاں تک ازروئے قرآن کسی حدیث کا مجرد اہل
|