بارے میں علماء کا ایک تیسرا گروہ بھی ہے جو اس کے داعئ بدعت یا غیر داعئ بدعت ہونے کی صورت میں فرق کرتا ہے۔ ان کے نزدیک غیر داعی کی حدیث قابل قبول ہے جبکہ داعئ بدعت لائق رد ہے، یہ مذہب نہایت عدل پر مبنی ہے چنانچہ ائمہ کے اکثر گروہ اسی کے قائل ہیں۔ امام ابن حبان نے اس پر اہل العقل کے اجماع کا دعویٰ کیا ہے، لیکن یہ دعویٰ محل نظر ہے۔ پھر داعی و غیر داعئ بدعت کے مابین اس فصل کے قائلین کا بھی آپس میں اختلاف ہے۔ بعض کے نزدیک یہ مطلق ہے جبکہ دوسروں نے اس کے ساتھ اس بات کا مزید اضافہ کیا ہے کہ اگر داعی کی روایت کسی ایسی چیز پر مشتمل ہو کہ جو اس کی بدعت کو بظاہر تقویت پہنچاتی ہو یا اس کی تزیین و تحسین کرتی ہو تو وہ قابل قبول نہ ہو گی اگر ان چیزوں پر مشتمل نہ ہو تو قبول کی جائے گی۔ بعض نے اس فرق کو بعینہ بالعکس داعئ بدعت کے حق میں بیان کیا ہے، چنانچہ ان کا قول ہے کہ اگر اس کی روایت ایسی چیز پر مشتمل ہو کہ جس سے اس کی بدعت کی تردید ہوتی ہو تو وہ قبول کی جائے ورنہ نہیں۔ اسی طرح اگر مبتدع داعی ہو یا غیر داعی اس کی کوئی ایسی روایت جس کا تعلق اصلاً اس کی بدعت سے نہ ہو تو کیا اس کی روایت مطلقاً قبول کی جائے گی یا مطلقاً رد؟ ابو الفتح القشیری نے اس بارے میں ایک دوسری تفصیل بیان کی ہے، فرماتے ہیں کہ اگرچہ کوئی دوسرا بھی اس کی موافقت کرتا ہو تو بھی اس کی طرف التفات نہ کیا جائے کہ یہ اس کی بدعت کا اخماد اور اس کے لئے جہنم کا اطفاء ہے، لیکن اگر کوئی دوسرا اس کی موافقت نہ کرتا ہو یا اس کے علاوہ حدیث اور کہیں نہ ملے اس کے ساتھ ہی وہ صدق، کذب سے احتراز، دین کے لئے مشتہر بھی ہو نیز اس کی اس حدیث کا تعلق اس کی بدعت سے بھی نہ ہو تو اس حدیث کی تحصیل کی مصلحت اور اس سنت کے نشر کو اس کی اہانت اور اس کی بدعت کے اطفاء کی مصلحت پر مقدم کرنا چاہیے، واللہ أعلم‘‘۔ [1]
شیخ احمد شاکر رحمہ اللہ مبتدع کی روایت کی قبولیت کے لئے بعض علماء کی شرائط – مثلاً یہ کہ وہ اپنے مذہب کی تائید میں کذب کو حلال نہ سمجھتا ہو اور یہ کہ اپنی بدعت کا داعی و مبلغ نہ ہو – بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
’’وهذه الأقوال كلها نظرية والعبرة في الرواية بصدق الراوي و أمانته والثقة بدينه و خلقه والمتتبع لأحوال الرواة يري كثيرا من أهل البدع موضعا للثقة والاطمئنان، و إن رووا ما يوافق رأيهم ويري كثيرا منهم لا يوثق بأي شيء يرويه و لذلك قال الحافظ الذهبي في الميزان في ترجمة أبان بن تغلب الكوفي (1/5) ”شيعي جلد لكنه صدوق فلنا صدقه و عليه بدعته وقد وثقه أحمد ابن حنبل وبن معين و ابو حاتم“۔ ثم قال والذي قاله الذهبي مع ضميمه ما قاله ابن حجر فيما مضي: هو التحقيق المنطبق علي أصول الرواية ۔ واللّٰه أعلم‘‘ [2]
ہمیں توقع ہے کہ مبتدعین سے روایت قبول کرنے کے بارے میں محدثین کرام کی بیدارئ مغز اور ہر ممکن
|