بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ] [1] پس معلوم ہوا کہ ہر انسان کا ذہن اور اس کی دماغی صلاحتیں مساوی نہیں ہوتیں، اس لئے ہر ایک کے سوچنے سمجھنے کے انداز بھی مختلف ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس بدیہی امر کے مطابق محدثین میں بھی مختلف ذہن اور معیار کے لوگ موجود ہوں گے جنہوں نے ماحول، ضرورت، اپنی جداگانہ دماغی صلاحیتوں اور اپنے مختلف معیار احتیاط کے مطابق جرح و تعدیل کے لئے اپنے اپنے اصول وضع کئے ہوں گے۔ ان کے معیار احتیاط مختلف ہونے سے ان کی وسعت علم، بصیرت و بصارت، فقاہت و تجربہ، معیار اخلاق اور معقولیت پر کوئی حرف نہیں آتا ہے اور نہ ہی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ وہ تمام محققین اس بات سے بھی لاعلم تھے کہ ’’کیا باتیں جرح کے حکم میں داخل ہیں اور کیا باتیں تعدیل کے مقتضیات میں سے ہیں‘‘۔ یا ’’کردار کی اساسات کیا ہیں، بدکاری کی بنیادیں کیا ہیں‘‘۔
اب جناب اصلاحی صاحب کا اگلا قول ملاحظہ فرمائیں، فرماتے ہیں: ’’جرح و تعدیل کا کام علم، فقاہت، بصیرت، تجربے اور معقولیت کا متقاضی ہے، انسان ہمیشہ انسان ہی رہے ہیں، فرشتے نہیں رہے۔ فن اسماء الرجال کے ماہرین کا معیار اخلاق، بصیرت و بصارت بےشک ہم سے اونچا رہا ہے لیکن وہ بہرحال آدمی ہی تھے۔ رواۃ حدیث کے متعلق ان کی فراہم کردہ معلومات اور ان پر مبنی آراء عام انسانی جبلت میں موجود تعصب کے شائبہ سے پاک نہیں ہو سکتیں الخ‘‘۔ ٹھیک یہی بات جناب مودودی صاحب کے الفاظ میں اوپر منقول ہو چکی ہے، لیکن جہاں تک مذکورہ احتمال کا تعلق ہے تو جاننا چاہیے کہ قدیم ائمہ فن وسعت علم، فقاہت، بصیرت، تجربے اور معقولیت کے مطلوبہ معیار سے متصف ہی نہیں بلکہ ان کے اعلیٰ مقام پر فائز تھے، جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے۔ ان کے فرشتہ نہیں بلکہ بنی نوع آدم ہونے کے ہم بھی قائل ہیں، اور آدمی ہونے کے باعث رواۃ حدیث کے متعلق فراہم کردہ ان کی معلومات کو ’’انسانی جبلت میں موجود تعصب کے شائبہ سے‘‘ قطعاً پاک نہیں سمجھتے جو حق یا مخالف دونوں صورتوں میں موجود ہو سکتا ہے۔ بلاشبہ ان ماہرین فن میں سے بعض سے بعض اوقات ایسی فروگزاشت ہوئی ہیں جن کا تذکرہ خود ہم نے اوپر ’’فن جرح و تعدیل کی نزاکت‘‘ اور ’’جرح و تعدیل کے چند اصول و ضوابط‘‘ کے تحت کیا ہے، لیکن بعض مواقع پر ان سے صادر ہونے والی خطاؤں اور بشری کمزوریوں کی بناء پر پورے فن جرح و تعدیل کو ہرگز مشتبہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ خود جناب اصلاحی صاحب بھی ان کے باعتبار معیار اخلاق اور بصیرت و بصارت ہم سے بلند ہونے کے معترف ہیں، پھر ان ماہرین سے اگر کبھی ایسی کوئی خطاء سرزد ہوئی بھی ہے تو دوسرے علماء نے فوراً اس کا نوٹس لیا ہے اور دوسروں کو اس سے باخبر کر دیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک محققین میں سے کوئی بھی ان کے ان شاذ اقوال کی طرف نگاہ التفات نہیں کرتا۔
اوپر ہم نے جو ’’جرح و تعدیل کے چند اصول و ضوابط‘‘ بیان کئے ہیں، ان کی مدد سے بھی بہ آسانی اس بات
|