Maktaba Wahhabi

233 - 363
اپنے جذبات کا بھی کسی حد تک دخل ہو جائے‘‘۔ [1] اب اس فقید المثال فن پر عائد کردہ الزامات کا جواب ملاحظہ فرمائیں: فرماتے ہیں کہ ’’سند کی تحقیق میں دوسرا خلاء جرح و تعدیل کے کام کی نزاکت سے پیدا ہوتا ہے۔ ہر محقق یہ نہیں جانتا کہ جرح کس چیز پر ہونی چاہیے اور تعدیل کس چیز کی ہونی چاہیے۔ یعنی یہ جاننا کہ کیا باتیں جرح کے حکم میں داخل ہیں اور کیا باتیں تعدیل کے مقتضیات میں سے ہیں ہر شخص کا کام نہیں ہے – موجودہ دور کے غلو عقیدت و نفرت سے اس مشکل کا ایک سرسری اندازہ کیا جا سکتا ہے‘‘ – جرح و تعدیل کے کام کی نزاکت کا احساس و اعتراف کس کو نہیں ہے؟ بلاشبہ اس فن کی اہمیت، ضرورت اور نزاکت انتہائی احتیاط کی متقاضی ہے، لیکن اس چیز کو اس فن کی کمزوری یا خلاء کی علامت قرار نہیں دیا جا سکتا۔ فن جرح و تعدیل کے ابتدائی دور میں، جب کہ اس کے اصول و ضوابط باقاعدہ مقرر نہ ہوئے تھے، ائمہ فن نے اپنی فہم و بساط کے مطابق اس بارے میں حد درجہ محتاط رہنے کی کوشش کی تھی۔ اس لئے بعض اوقات ان ائمہ کے کلام میں ہمیں کچھ ایسی چیزیں نظر آ جاتی ہیں جو اس فن کے اصول و مبادیات سے متصادم یا غیر متعلق محسوس ہوتی ہیں مثلاً جب حکم بن عتبہ سے سوال کیا گیا کہ آپ زاذان سے روایت کیوں نہیں کرتے؟ تو انہوں نے فرمایا کہ ’’وہ کثیر الکلام تھا‘‘۔ حالانکہ اگر کلام مباح ہو تو کثرت کلام کوئی باعث جرح امر نہیں ہے۔ پس اس قول کو ان کی حد درجہ احتیاط پر محمول کرنا چاہیے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث میں مروی ہے: ’’من كثر كلامه كثر سقطه ومن كثر سقطه كثرت ذنوبه ومن كثرت ذنوبه فالنار أولي به‘‘ (رواہ الطبرانی فی الاوسط) اگرچہ یہ حدیث سنداً ضعیف ہے، کما فی فیض القدیر للمناوی [2]، لیکن حافظ سخاوی رحمہ اللہ نے حکم بن عتبہ کے قول کی یہی توجیہ بیان کی ہے۔ اسی طرح جریر بن عبدالحمید کا سماک بن حرب کو کھڑے ہو کر پیشاب کرتے دیکھنے پر انہیں ترک کرنا بھی ان کے حد درجہ محتاط ہونے پر دلالت کرتا ہے۔ حافظ سخاوی رحمہ اللہ اس کی وجہ یہ بیان کرتے ہیں کہ: ’’لوگوں کی نگاہ ان کے ستر پر پڑتی ہو گی‘‘۔ ایسی چند مثالوں کو دیکھ کر جناب اصلاحی صاحب کا یہ نتیجہ اخذ کر لینا کہ قدیم ائمہ فن کہ جنہوں نے فن جرح و تعدیل کی بنیاد رکھی اور اس میں اپنی پوری پوری عمریں اور تمام توانائیاں صرف کر دیں، یہ بھی نہ جانتے تھے کہ ’’جرح کس چیز پر ہونی چاہیے اور تعدیل کس چیز کی‘‘، یا ’’کردار کی اساسات کیا ہیں اور بدکرداری کی بنیادیں کیا ہیں‘‘۔ ان پر سراسر ظلم اور نا انصافی کی بات ہے۔ ان ائمہ متقدمین سے اس قسم کے بعض اقوال منقول ہونے کے اسباب پر اگر غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ سارے انسان کا یکساں نہ ہونا ایک بدیہی امر ہے، حتی کہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء و رسل میں بھی بعض کو بعض پر فضیلت بخشی ہے، چنانچہ قرآن کریم میں ارشاد ہوتا ہے: [تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا
Flag Counter