اور اپنے تجربات کی روشنی میں ان پر کوئی حکم لگایا ہے۔ یہ درست ہے کہ ان ائمہ فن کا ان راویان حدیث سے معاملات میں عملاً کوئی سابقہ نہیں پڑا، نہ وہ کسی کے ساتھ کاروبار یا تجارت میں شریک ہوئے، نہ ان کے ساتھ سفر کیا، نہ ان کے پڑوس میں جا بسے، نہ طویل عرصہ تک مسجد میں ایک دوسرے سے ملے جلے، نہ دنیاوی معاملات میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کیا اور نہ ربط ضبط کا ماحول رکھا، لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ وہ ائمہ بس چند ساعتوں کے لئے کسی بستی میں جا ٹھہرے اور لوگوں کو بلا کر لائن لگوائی پھر الیکشن کمیشن کی پولنگ لسٹ کی طرح اس بستی میں ہی رہنے والے رایوں کے ناموں کی فہرست تیار کر ڈالی یا زیادہ سے زیادہ یہ کیا کہ ان راویوں سے چند دقیقہ ملے اور سرسری طور پر ان کی شکل و شباہت یا وضع قطع دیکھ کر اٹکل پچو سے کوئی رائے قائم کر ڈالی۔ حقیقت یہ ہے کہ ان ائمہ نے ان راویوں کے اہل بلد، جنہیں آپ گھر کے بھیدی بھی کہہ سکتے ہیں، سے ان کے حفظ و ضبط، امانت و دیانت، عدل و اتقان، اخلاق و کردار، علم و عمل، تعلقات و معاملات اور صداقت وغیرہ کے متعلق تفصیلی شہادتیں طلب کیں، پھر ان کا تجزیہ کیا اور بالآخر ان کے متعلق کوئی قطعی رائے قائم کی۔ بلاشبہ ان راویوں کے متعلق شہادت دینے والے اہل بلد میں ایسے لوگ بھی شامل ہوں گے جنہوں نے ان راویوں کو بچپن سے دیکھا ہو گا اور وہ بھی ہوں گے جن کا ان راویوں سے معاملات میں عملاً سابقہ پڑا ہو گا، ہو سکتا ہے ان میں سے کوئی ان کے کاروبار یا تجارت کا شریک یا ہم سفر یا پڑوسی یا مسجد کا ملاقاتی یا دنیاوی معاملات میں ایک دوسرے کا غمخوار بھی رہا ہو۔ اگر راویان حدیث کے متعلق کوئی قطعی و حتمی رائے قائم کرنے کے لئے جناب اصلاحی صاحب کے نزدیک صرف ان کے اہل بلد ہی نہیں بلکہ وہ اہل بلد جو ان میں تقویٰ کے اعتبار سے منفرد ہوں اور اعلیٰ مقام رکھتے ہوں کی تائید و شہادت کافی نہیں تو آں موصوف ہی فرمائیں کہ کیا انہیں اللہ تعالیٰ کی جانب سے ان راویوں کی ثقاہت کی تائید مطلوب ہے؟ پس معلوم ہوا کہ اگر کسی راوی کے متعلق متقدمین ائمہ میں سے کسی نے کوئی فیصلہ صادر کیا ہو تو ان کا قول اس راوی کے بارے میں قرب زمانہ نیز اہل بلد کی شہادت کے باعث معتبر اور قطعی ہی تصور کیا جائے گا، واللہ أعلم۔
محترم اصلاحی صاحب کی یہ منطق بھی خوب نرالی ہے کہ ’’آدمی کے کردار و اخلاق کے معاملہ میں قابل اطمینان رائے اسی صورت میں قائم کی جا سکتی ہے جب معاملات میں اس سے عملاً سابقہ پڑا ہو الخ‘‘ – میں پوچھتا ہوں کہ آخر پھر شہادت کا مطلب و منشا ہی کیا رہا؟ اگر بفرض محال آں موصوف کی بابت کو درست مان لیا جائے تو اس سے تمام دنیا کا نظام الٹ پلٹ ہو کر رہ جائے گا۔ کسی شاہد کی شہادت اس لئے قبول نہ کی جائے گی کہ ملزم کے ساتھ اس کو عملاً کوئی سابقہ نہیں پڑا، کوئی جج بھی کسی مجرم کو محض اس لئے سزا نہیں دے پائے گا کہ عملاً اس کا سابقہ مجرم سے نہیں پڑا ہے۔
جہاں تک ’’حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے صاحب علم و فراست کی رائے‘‘ سے استدلال کا تعلق ہے تو جاننا
|