Maktaba Wahhabi

228 - 363
آپ کو یہ تفصیل بھی ملے گی کہ فلاں ابن فلاں، عمر فلاں، مکان نمبر فلاں، محلّہ فلاں، پیشہ فلاں، قومیت (برادری) فلاں، مذہب فلاں، تاریخ ولادت فلاں، کس جماعت سے تعلق رکھتا ہے؟ اس کی مادری زبان کیا ہے؟ آباء و اجداد سے اس علاقہ میں رہتا آیا ہے یا کسی دوسرے علاقہ سے آ کر وہاں سکونت اختیار کر لی ہے؟ جعل ساز ہے یا قاتل یا زناکار یا چور یا ڈاکو یا سٹہ باز یا جیب کترا یا جواری یا شرابی یا لٹیرا یا غاصب یا راشی یا منشیات فروش یا اسمگلر یا کالا بازاری میں ملوث یا قحبہ گری کا اڈا چلانے والا یا جسم فروشوں کا دلال وغیرہ یا کہ نیک سیرت، متقی و پرہیزگار، شریف النفس اور ایماندار شخص؟ سزا یافتہ یا نہیں؟ معاشرہ میں اس کا کیا مقام و مرتبہ ہے؟ سیاسی اعتبار سے اس کی کیا حیثیت ہے؟ اس کی نشست و برخواست کن لوگوں کے درمیان ہے؟ وغیرہ – کیا کوئی ذی عقل و شعور ان ایجنسیوں کی فراہم کردہ ان دفتری معلومات سے صرف یہ نتیجہ اخذ کر سکتا ہے کہ فی الجملہ ان لوگوں کے کوائف معلوم ہو گئے ہیں اور اب ان کی شخصیات مجہول نہیں رہیں لیکن چونکہ ریکارڈ مرتب کرنے والے لوگوں کا ان تمام لوگوں کے ساتھ معاملات میں عملاً سابقہ نہیں پڑا ہے لہٰذا ان کی رائے کو حتمی یا قطعی یا قابل اعتماد سمجھنا ان ذرائع معلومات پر ضرورت سے زیادہ اعتماد کرنا ہے؟ یا یہ کہ جن لوگوں نے ریکارڈ مرتب کیا ہے آخر وہ بھی تو انسان ہی تھے، نفس ان میں سے ہر ایک کے ساتھ لگا ہوا تھا، کوئی بھی ان میں انسانی کمزوریوں سے مبرا نہ تھا لہٰذا ان کی فراہم کردہ معلومات پر پوری طرح اعتماد نہیں کیا جا سکتا؟ اگر اس طرح کی منفی سوچ کر درست اور عملی زندگی میں قابل قبول تسلیم کر لیا جائے تو دنیا کا تمام نظام درہم برہم ہو کر رہ جائے گا۔ محترم اصلاحی صاحب کے اگلے قول – ’’آدمی کے کردار و اخلاق کے معاملہ میں قابل اطمینان رائے اسی صورت میں قائم کی جا سکتی ہے جب معاملات میں اس سے عملاً سابقہ پڑا ہو – مطلب یہ ہے کہ جب تک آدمی کسی کے ساتھ کوئی معاملہ نہ کرے، اس کے ساتھ کسی کاروبار یا تجارت میں شریک نہ رہا ہو، اس کے ساتھ سفر نہ کیا ہو، اس کا پڑوس نہ رہا ہو، مسجد میں ایک دوسرے سے میل ملاپ نہ رہا ہو، دیگر دنیاوی معاملات میں ایک دوسرے سے تعاون نہ رہا ہو، ربط و ضبط کا ماحول نہ رہا ہو تو اس کے بارے میں واقعہ یہ ہے کہ آسانی کے ساتھ رائے قائم نہیں کی جا سکتی۔ ان حالات میں بعض اوقات ایک ذہین و فطین آدمی بھی دھوکہ کھا سکتا ہے‘‘ – کے متعلق اہم چند باتیں عرض کرنا ضروری سمجھتے ہیں: پہلی بات تو یہ کہ محدثین نے رواۃ حدیث کے متعلق خود اپنے گھروں میں بیٹھ کر کوئی رائے قائم نہیں کی بلکہ مہینوں مہینوں کی طویل طویل مسافت طے کر کے وہ بہ نفس نفیس ان راویان حدیث کی بستیوں میں گئے ہیں، وہاں ان راویوں سے ملے ہیں جو کہ بقید حیات تھے، ان کی مرویات درج کی ہیں اور بستی والوں سے مل کر ان کے حالات و کوائف کی تفصیلات دریافت کی ہیں۔ پھر ان شہادتوں اور ان کی روایات کی اسناد و متون کے خوردبینی تجزئیے
Flag Counter