و اتقان، ضبط و حمل، وہم و اختلاط، عقائد و نظریات، اخلاق و کردار، علم و عمل، تعلقات و معاملات اور مرویات کے نمونے وغیرہ کی ایسی جامع تحقیق کہ ان کے متعلق یہ طے کیا جا سکے کہ علم رسول کے حمل و نقل کے بارے میں ان پر اطمینان کیا جا سکتا ہے یا نہیں؟ کوئی آسان کام نہیں ہے۔ صد فی صد درست ہے۔ خود جناب اصلاحی صاحب کو اس ضمن میں ائمہ فن کی طرف سے کی جانے والی جدوجہد اور ان کی جاں فشانیوں کا پوری طرح احساس و اعتراف ہے جیسا کہ منقولہ بالا عبارتوں کے بعض مقامات سے ظاہر ہوتا ہے۔ لیکن ان نابغہ روزگار محدثین کی ان رفیع الشان کوششوں کا اعتراف کرنے کے بعد خود آں موصوف نے اس فن کی تخفیف و تحقیر کا جو اسلوب اختیار کیا ہے وہ نہ صرف باعث حیرت و استعجاب ہے بلکہ اس سے خود ان کی اپنی سابقہ تحریر کا بطلان بھی ہوتا ہے۔ یہ بات اپنی جگہ مسلم ہے کہ اگر آج بھی ہم اپنے گاؤں یا قصبہ یا شہر کے لوگوں کے بارے میں اتنی تفصیلی معلومات حاصل کرنا چاہیں تو یہ کام بہت ہی دشوار اور صبر آزما ہو گا، لیکن ناممکن بہرحال نہیں ہے۔ کسی کام کا آسان نہ ہو کر مشکل یا دشوار ہونا، اس کام کے غیر معتبر اور ناقابل اعتماد ہونے کی دلیل نہیں ہوتا اور نہ ہی اس راہ کی دشواریوں کو اس کام کے کمزور پہلو یا خلاء سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ اگر حق و انصاف کی نگاہ سے دیکھا جائے تو تمام دشواریوں کے باوجود اس کام کو ایسے عمدہ طریقہ پر انجام پا جانا بجائے خود اس فن کی عظمت نیز محدثین کی رفعت شان، عرق ریزی، دقت نظر، ایثار و حلم، جستجو و نزاہت اور دقت فہم کی دلیل ہے۔ کاش جناب اصلاحی صاحب اس بارے میں محدثین کرام کی جاں فشانیوں کا عملی طور پر اندازہ کرنے کی غرض ہی سے سہی ان کی سنت پر عمل کرتے ہوئے اپنے رہائشی محلّہ، قصبہ، گاؤں، شہر، تعلق یا علاقہ کے باشندوں کے نہیں بلکہ ان میں سے صرف اہل علم و تقویٰ کے احوال جمع کرنے کی سعی کر دیکھتے، شاید آں موصوف کو محدثین کرام کی کاوشوں، ان کی جہد و سعی، ان کے صبر و ایثار اور اس فن کی عظمت کا کچھ نہ کچھ اندازہ ضرور ہو جاتا، اور اندازہ اگر نہ بھی ہوتا تو کم از کم یہ ضرور محسوس ہو جاتا کہ اس طرح کی تحقیق، کہ جس سے یہ طے کیا جا سکے کہ علم رسول کے اخذ و نقل کے بارے میں ان پر اطمینان کیا جا سکتا ہے یا نہیں، بہرحال ناممکن نہیں ہے، لہٰذا اس بارے میں محدثین کرام کی فراہم کردہ معلومات کو ناقابل اعتماد قرار دینا سراسر نا انصافی کی بات ہے۔ میں پوچھتا ہوں کہ اگر کسی بھی علاقہ کے باشندوں یا کسی ملک کے اندرونی حالات کا قابل اعتماد حد تک درست معلوم کرنا ناممکن ہی ہوتا تو آخر برصغیر میں آئی-ایس-آئی، سی-آئی-ڈی، سی-بی-آئی، و جیلینس، را اور بین الاقوامی سطح پر کے-جی-بی، سی-آئی-اے، خاد اور موساد وغیرہ جیسی خفیہ معلومات فراہم کرنے والی تنظیموں کے قیام کا مقصد اور دائرہ کار کیا ہے؟ شہری یا علاقائی سطح پر اگر آپ مشاہدہ کرنا چاہیں تو اپنے محلّہ یا علاقہ کے قریبی پولیس اسٹیشن یا سی-آئی-ڈی آفس جا کر دیکھیں اور ان سے پوچھیں کہ وہ کس طرح اپنے اپنے حلقوں کے تمام لوگوں کے احوال و اعمال، ان کی سیرت و کردار اور ان کی نقل و حرکت کا ریکارڈ محفوظ کرتے ہیں۔ ان کے پاس |