بھی رکھا ہے یا نہیں جو فقیہانہ نقطہ نظر سے استنباط مسائل میں اہمیت رکھتی ہیں‘‘۔ [1]
جناب مودودی صاحب کی ان عبارتوں سے صرف نظر کرتے ہوئے ہم جناب اصلاحی صاحب کے منقولہ بالا طویل اقتباس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں جس کا لب لباب صرف یہ ہے کہ محدثین کرام نے حدیث نبوی کی تحقیق و تنقیح کے لئے فن اسماء الرجال کی جو اصولی بنیاد فراہم کی ہے وہ قابل اعتماد نہیں ہے کیونکہ ’’اسی نوعیت کی تحقیق اگر ہم گاؤں یا قصبہ یا شہر کے لوگوں کے بارے میں کرنا چاہیں تو چنداں آسان نہیں‘‘ ہے، تو پھر محدثین کا ہزارہا میل دور اور وہ بھی مختلف ادوار میں پھیلے ہوئے لوگوں کے بارے میں فراہم کردہ علم کیوں کر معتبر ہو سکتا ہے، بالخصوص اس صورت میں کہ جب ان محدثین کا ان رواۃ حدیث سے ’’معاملات میں عملاً کوئی سابقہ بھی نہ پڑا ہو‘‘۔ مختصراً یہ کہ مسلمانوں کے اس عظیم الشان و فقید المثال فن سے اگر کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو وہ زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ رواۃ حدیث حد جہالت سے نکل گئے ہیں۔ لیکن ان کے ضبط و عدالت کے متعلق کوئی قطعی رائے قائم کرنا اپنی معلومات پر ضرورت سے زیادہ اعتماد بلکہ خوش فہمی ہی ہے۔
محترم اصلاحی صاحب کی مندرجہ بالا عبارت کو پڑھنے سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آں جناب نے فن اسماء الرجال کا ٹھیک سے مطالعہ ہی نہیں کیا ہے، ورنہ ایسے مہمل اعتراضات کبھی نہ کرتے۔ محترم اصلاحی صاحب کے ان اعتراضات کو اگر جناب مودودی صاحب کے پر اعتزال خیالات کی روشنی میں پڑھا جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اصلاحی صاحب نے اس ضمن میں جو کچھ تحریر فرمایا ہے وہ ان کے اپنے مطالعہ و تحقیق کا حاصل نہیں ہے، بلکہ اس پر مودودی صاحب کی رفاقت یا جماعت اسلامی کے عمومی مسموم افکار کی چھاپ واضح طور پر نظر آتی ہے – یہ افکار ان کے اپنے ہوں یا مستعار لئے ہوئے، بہرحال اس فن سے عدم ممارست کا ثبوت ضرور ہیں، لہٰذا ہم نہایت خلوص کے ساتھ آں محترم کو مشورہ دیتے ہیں کہ علم حدیث کے معاملہ میں اس بے بصیرت جماعتی ماحول، کہ جس میں آں محترم کی ذہنی تربیت و تنظیم ہوئی ہے، کو ترک کر کے ذرا وسیع النظری کے ساتھ اس عظیم الشان فن کا دوبارہ مطالعہ کریں، ان شاء اللہ اس میں جو خلاء اور کمزوریاں ان کو دکھائی یا بتائی گئی ہیں وہ خود بخود دور ہوتی نظر آئیں گی۔ قارئین کرام کو اس فن کی عظمت سے روشناس کرانے کی غرض سے ایک ہلکا سا تعارفی خاکہ زیر نظر باب کے حصہ أول میں پیش کیا جا چکا ہے۔
جہاں تک جناب اصلاحی صاحب کی اس بات کا تعلق ہے کہ – اپنے تعلق اور علاقہ سے بعید ہزاروں بلکہ لاکھوں آدمیوں کے اسماء، انساب، القاب، کنی، اوطان، موالید، وفیات، رحلات، اسماء والدین، اسماء اولاد، اسماء شیوخ، اسماء طلاب، اسماء اصحاب، اصحاب حدیث سے لقاء، سماع اور معاصرت، کذب و صدق، امانت و تقویٰ، حفظ
|