حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے قول کی تائید و تصدیق فرمائی۔ [1]
5- حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کا فاطمہ بنت قیس کی حدیث: ’’طلقني زوجي ثلاثا علي عهد النبي صلي اللّٰه عليه وسلم فقال رسول اللّٰه صلي اللّٰه عليه وسلم لا سكني لك ولا نفقة‘‘ سن کر یہ فرمانا: ’’لا ندع كتاب ربنا و سنة نبينا لقول امرأة لعلها حفظت أو نسيت‘‘ [2]
6- مجاہد رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ بشیر عدوی حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حدیثیں بیان کرنے لگے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا اور یہ فرمایا، لیکن ابن عباس رضی اللہ عنہما کا یہ حال تھا کہ نہ ان کی بات پر کان دھرا اور نہ نگاہ اٹھا کر دیکھا، تو بشیر نے کہا: کیا معاملہ ہے؟ آپ میری بات نہیں سنتے؟ میں آپ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کرتا ہوں اور آپ توجہ نہیں دیتے؟ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: ہمارا یہ حال تھا کہ جب ہم کسی کو یہ کہتے ہوئے سنتے کہ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو ہماری نگاہیں اس کی طرف فوراً اٹھ جاتی تھیں اور کان اس کی طرف لگ جاتے تھے، لیکن جب لوگوں نے رطب و یابس بیان کرنا شروع کر دیا تو ہم صرف وہی روایت قبول کرتے ہیں جس کو ہم جانتے ہوں کہ یہ حدیث نبوی ہے۔[3]
غرض دور صحابی سے اس قسم کی اور بھی بہت سی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بعد عہد تابعین میں بھی اسناد اور نقد رجال کے ساتھ متن حدیث پر نقد کا خوب اہتمام کیا گیا ہے، چنانچہ سوید بن عبدالعزیز، مغیرہ کے متعلق بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا:
1- ’’ہم ایک شیخ کے پاس گئے جن کے متعلق ہم کو یہ خبر پہنچی تھی کہ وہ احادیث بیان کرتے ہیں۔ پس جب ہم ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کے پاس جا پہنچے تو انہوں نے ہم سے آنے کا سبب دریافت کیا۔ ہم نے عرض کیا کہ ہم ایک ایسے شیخ کی خدمت میں حاضر ہوئے ہیں جو احادیث بیان کیا کرتے ہیں تو ابراہیم نخعی رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’لقد رأيتنا و ما نأخذ الأحاديث إلا ممن يعرف وجوهها و إنا لنجد الشيخ يحدث بالحديث يحرف حلاله من حرامه وما يعلم‘‘ [4]
2- ایوب سختیانی (م 131ھ) کا قول ہے کہ ’’اگر تو اپنے معلم کی خطا (یعنی متن حدیث میں راوی کی خطا) کو جاننا چاہے تو اس کے علاوہ کسی دوسرے شیخ کی مجلس درس میں بھی بیٹھ‘‘۔ [5]
3- اسماعیل بن ابراہیم بیان کرتے ہیں کہ مجھے ایوب نے ابن ملیکہ (م 117ھ) کے متعلق خبر دی کہ انہوں
|