ثوری رحمہ اللہ کو ’’ثقہ‘‘[1]بیان کیا ہے۔
امام حاکم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’جرح رواۃ میں راویوں کے احوال بیان کئے جاتے ہیں۔ محدثین کے کلام سے ان کی غیبت کرنا مقصود نہیں ہوتی بلکہ محض اظہار احوال مقصود ہوتا ہے، تاکہ اس کے ذریعہ حدیث کی حفاظت ممکن ہو‘‘۔[2]
پس واضح ہوا کہ جب وجوہ جرح موجود ہوں گے تو رواۃ پر جرح ضروری ہو گی۔ یہ جرح غیبت کی قبیل سے نہیں بلکہ دین کی صیانت و حفاظت کے لئے ہوتی ہے۔ محدثین کی اصطلاح میں جرح راوی کے ان معایب کے ذکر کا نام ہے جن کی وجہ سے اس کی روایت کے صحت پر اثر پڑتا ہے۔ مگر صوفیاء کے طبقہ کی طرف سے اس جلیل القدر فن پر ہمیشہ سے اعتراض کیا جاتا رہا ہے، تاکہ ان کے افکار باطلہ پر گرفت کا کوئی مؤثر ذریعہ باقی نہ رہے، اور وہ اپنی من مانی خرافات کو دین کے نام پر بلا روک ٹوک شائع و عام کر سکیں، چنانچہ مروی ہے کہ ایک مرتبہ مشہور صوفی عسکر بن الحصین المعروف بأبی تراب النجشی نے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کو بعض رواۃ حدیث پر جرح کرتے ہوئے سنا تو ان سے کہا:
’’يا شيخ لا تغتب العلماء‘‘ یعنی ’’اے بزرگ! علماء کی غیبت نہ کرو‘‘۔ یہ سن کر امام احمد اس کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ’’و يحك هذا نصيحة ليس هذا غيبة‘‘ [3]
اسی طرح عبداللہ بن مبارک کے ترجمہ میں قاضی عیاض رحمہ اللہ لکھتے ہیں ’’بعض صوفیاء نے ابن مبارک سے بعض رواۃ کی تضعیف سن کر کہا: ’’يا أبا عبدالرحمن تغتاب‘‘؟ (یعنی اے ابو عبدالرحمٰن! کیا آپ غیبت کرتے ہیں؟) تو آں رحمہ اللہ نے جواب دیا: ’’اسكت، إذا لم نبين فمن أين يعرف الحق من الباطل؟‘‘ (خاموش رہ، اگر ہم یہ بیان نہ کریں تو کوئی حق کو باطل سے کس طرح پہچانے گا؟‘‘۔ [4]
جرح و تعدیل کی رد میں اکثر و بیشتر مندرجہ ذیل دو واقعات سے استدلال کیا جاتا ہے:
1- ’’بیان کیا جاتا ہے کہ ایک مرتبہ مشہور صوفی یوسف بن الحسین الرازی جنہیں صوفیاء کے طبقہ ابدال
|