Maktaba Wahhabi

203 - 363
’’التجريح والتعديل في الشهود عند الحاكم – إنما يجوز – عند توقع الحكم بقول المجرح ولو في مستقبل الزمان أما عند غير الحاكم فيحرم لعدم حاجة لذلك – وكذلك رواة الحديث: يجوز وضع الكتب في جرح والمجروح منهم والإخبار بذلك لطلبة العلم الحاملين لذلك لمن ينتفع به و هذا الباب أوسع من أمر الشهود لأنه لا يختص بحكام بل يجوز وضع ذلك لمن يضبطه و ينقله و إن لم تعلم عين الناقل لأنه يجري مجري ضبط السنة والأحاديث و طالب ذلك غير متعين الخ‘‘ [1] امام ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’أجمع العلماء علي جواز جرح المجروحين من الرواة أمواتا و أحياء‘‘ [2] یعنی ’’رواۃ میں سے مردہ و زندہ مجروحین پر جرح کے جواز پر علماء کا اتفاق ہے‘‘۔ آں رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں: ’’علماء کا قول ہے کہ ہر صحیح غرض کے لئے شرعی غیبت مباح ہے کہ اس سے شریعت کے احکام تک رسائی کا صحیح راستہ متعین ہوتا ہے، مثلاً: تظلم، منکرات کو بدلنے پر استعانت، استفتاء محاکمہ اور شر سے تحذیر وغیرہ۔ اس میں رواۃ اور شہود پر جرح کرنا بھی داخل ہے الخ‘‘۔ [3] امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے بھی جابر الجعفی وغیرہ پر جرح منقول ہے، چنانچہ فرماتے ہیں: ’’ما رأيت أحدا أكذب من جابر الجعفي ولا أفضل من عطاء بن أبي رباح‘‘[4]یعنی ’’میں نے جابر جعفی سے بڑھ کر کوئی جھوٹا نہیں دیکھا اور نہ عطاء بن ابی رباح سے بڑھ کر کسی کو بافضیلت‘‘۔ اسی طرح آں رحمہ اللہ نے زید بن عیاش کو ’’مجہول‘‘[5]بتایا ہے۔ طلق بن حبیب کے متعلق فرماتے ہیں: ’’كان يري القدر‘‘[6]جہم بن صفوان اور مقاتل بن سلیمان کے متعلق فرماتے ہیں: ’’قاتل اللّٰه جهم بن صفوان و مقاتل بن سليمان، هذا أفرط في النفي و هذا أفرط في التشبيه‘‘[7]عمرو بن عبید کے متعلق آپ کا قول ہے: ’’لعن اللّٰه عمر وبن عبيد فإنه فتح للناس بابا إلي علم الكلام‘‘[8]اسی طرح آں رحمہ اللہ نے جعفر بن محمد کو ’’صادق‘‘[9]اور امام
Flag Counter