Maktaba Wahhabi

202 - 363
من الرواة والشهود و ذلك جائز بإجماع المسلمين بل واجب للحاجة – و منها إذا رأي متفقها يتردد إلي مبتدع أو فاسق يأخذ عنه العلم و خاف أن يتضرر المتفقه بذلك فعليه نصيحته ببيان حاله بشرط أن يقصد النصيحة – الخ‘‘ (پھر فرماتے ہیں: یہ وہ چھ اسباب ہیں جن کا ذکر علماء نے کیا ہے اور ان میں سے اکثر اسباب مجمع علیہ ہیں۔ ان کے دلائل صحیح مشہور احادیث ہیں جو کہ یہ ہیں -- الخ [1] خطیب بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’فيمن ليس بعدل لئلا يتغطي أمره علي من لا يخبره فيظنه من أهل العدالة فيحتج بخبره‘‘ [2] یعنی ’’جو راوی عدل نہ ہو اس پر جرح جائز ہے، کیونکہ اگر اس کے کوائف پر پردہ پڑا رہے تو جو شخص اس کے احوال سے بےخبر ہے وہ اسے اہل عدالت سمجھ کر اس کی احادیث سے احتجاج کرے گا‘‘۔ آں رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں: ’’والإخبار عن حقيقة الأمر إذا كان علي الوجه الذي ذكرناه لا يكون غيبة‘‘ [3] یعنی ’’رواۃ کے بارے میں حقیقت حال کو بیان کرنا اگر اس وجہ سے ہو کہ جس کا ہم نے ذکر کیا ہے تو یہ غیبت نہیں ہو سکتی‘‘۔ پھر آں رحمہ اللہ غیبت محرمہ کی صفت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’’پس غیبت، جس سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زجر فرمایا ہے، یہ ہے کہ کسی شخص کا اپنے بھائی کے عیوب کا برائی کے مقصد سے تذکرہ کرنا اور اس کی تنقیص کرنا۔ ظاہر ہے کہ ان امور پر نصیحت کا حکم نہیں لگایا جا سکتا، لیکن جو بات دوسروں کو خائن کی خیانت سے ہوشیار رہنے یا فاسق کی خبر قبول کرنے یا جھوٹے کی گواہی سننے سے تحذیر اور نصیحت کے مقصد کے لئے ہو اس پر غیبت کا اطلاق نہیں ہوتا۔ اگرچہ اس کے لئے استعمال کیا جانے والا ’’کلمہ‘‘ ایک ہی ہوتا ہے لیکن حسب اختلاف حال قائل کے اس قول کے دو مختلف معنی مراد ہوتے ہیں الخ۔‘‘ [4] علامہ قرافی رحمہ اللہ شہود اور رواۃ پر جرح کے مباح ہونے کے متعلق فرماتے ہیں:
Flag Counter