Maktaba Wahhabi

201 - 363
تو یہ اس کے لئے گناہ کا باعث ہو گا۔ اس پر واجب ہے کہ وہ حاکم کو ان کے بارے میں جو کچھ جرح یا تعدیل جانتا ہے باخبر کر دے تاکہ حاکم جو مناسب سمجھے فیصلہ کر سکے (یعنی یہ چیز غیبت شمار نہ ہو گی)۔ پس جب یہ چیز اس دنیائے فانی کے امور کے لئے جائز ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر ذب کذب کے لئے بدرجہ أولی جائز ہونی چاہیے، کیونکہ اگر گواہ اپنی گواہی میں جھوٹ بولے تو اس کا کذب متعدی نہیں ہوتا، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ بولنے والا حرام کو حلال اور حلال کو حرام بنا کر اپنا ٹھکانا جہنم میں بناتا ہے، تو جس نے اپنے فعل سے اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لیا ہو اس پر قدح کرنا کیوں کر جائز ہو گا؟‘‘ [1] امام ترمذی رحمہ اللہ ان لوگوں کے متعلق جو ائمہ حدیث کے رجال پر کلام کرنے کو معیوب سمجھتے ہیں، فرماتے ہیں: ’’بعض من لا يفهم‘‘[2]اور علمائے جرح و تعدیل کے رواۃ پر کلام کی یہ علت بیان فرماتے ہیں: ’’علمائے جرح و تعدیل ایسا جو کرتے ہیں تو اللہ ہی جانتا ہے کہ ہمارے نزدیک یہ چیز مسلمانوں کی نصیحت کے لئے ہے۔ اس سے ان کی مراد انسانوں پر طعن یا غیبت کرنی نہیں ہوتی، بلکہ ہمارے نزدیک ان کا ارادہ یہ ہوتا ہے کہ وہ ان رواۃ کا ضعف بیان کر دیں تاکہ لوگ ان کو پہچان لیں کیونکہ جن کی تضعیف کی جاتی ہے ان میں سے بعض صاحب بدعت ہوتے ہیں اور بعض حدیث گھڑنے کے لئے متہم، بعض غفلت اور کثرت خطا کا شکار ہوتے ہیں۔ پس ان ائمہ کا مقصد اور ارادہ یہ ہوتا ہے کہ ان رواۃ کے احوال لوگوں پر بیان کر دیں۔ بلاشبہ یہ دین کے ساتھ شفقت اور تثبیت ہے کیونکہ دین میں گواہی، حقوق اور اموال کی گواہی و تثبیت سے زیادہ اولیٰ ہے‘‘۔ [3] امام نووی رحمہ اللہ نے تو رواۃ پر قدح کو باتفاق واجب قرار دیا ہے، چنانچہ فرماتے ہیں: ’’اعلم أن جرح الرواة جائز بل واجب بالاتفاق للضرورة الداعية إليه لصيانة الشريعة المكرمة وليس هو من الغيبة المحرمة بل من النصيحة للّٰه تعاليٰ ورسوله صلي اللّٰه عليه وسلم والمسلمين ولم يزل فضلاء الأئمة و أخيارهم و أهل الورع منهم يفعلون ذلك‘‘ [4] امام غزالی اور امام نووی فرماتے ہیں کہ صحیح شرعی مقاصد کے لئے غیبت مباح ہے بشرطیکہ اس کے سوا اس تک رسائی ممکن نہ ہو۔ اس کے چھ اسباب ہیں، جن میں سے چوتھا سبب حسب ذیل ہے: ’’تحذير المسلمين من الشر و نصيحتهم و ذلك من وجوه منها جرح المجروحين
Flag Counter