Maktaba Wahhabi

200 - 363
و متروکین کو بیان کیا ہے اور فرمایا ہے کہ ان پر سکوت اختیار کرنا کسی طرح جائز نہیں ہے بلکہ واضح کر دینا خاموشی اختیار کرنے سے افضل ہے‘‘۔ [1] عمرو بن علی بیان کرتے ہیں کہ میں نے یحییٰ بن سعید رحمہ اللہ کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے: ’’میں نے سفیان الثوری، شعبہ بن الحجاج، مالک بن انس اور سفیان بن عیینہ سے اس شخص کے متعلق سوال کیا جو واہی الحدیث ہے پس اگر کوئی شخص میرے پاس آ کر اس کے متعلق پوچھے (تو میں کیا کروں؟) ان سب نے جواب دیا کہ میں برملا کہوں کہ وہ ثبت نہیں ہے اور یہ کہ میں لوگوں کو یہ بات بیان کر دوں (فأجمعوا أن أقول: ليس هو ثبت و أن أبين أمره) [2]۔ اور جب ان سے ایسے شخص کے بارے میں سوال کیا گیا جس پر تہمت کذب یا ضعف ہو تو کیا میں خاموش رہوں یا بیان کر دوں؟ تو انہوں نے فرمایا کہ: ’’بین‘‘ یعنی بیان کرو‘‘۔ [3] اسی طرح مالک، سعید اور ابن عیینہ سے ایسے شخص کے بارے میں سوال کیا گیا جو حدیث میں قوی نہ ہو تو سب نے فرمایا: ’’بين أمره للناس‘‘ یعنی ’’اس کا حال لوگوں پر بیان کر دو‘‘۔ [4] امام ابو زرعہ (م 264ھ) فرماتے ہیں: ’’میں نے عبدالاعلیٰ بن مسہر الغسانی رحمہ اللہ (م 218) کو کہتے ہوئے سنا کہ ان سے ایسے شخص کے متعلق سوال کیا گیا جو حدیث میں غلطیاں، وہم اور تصحیف کرتا ہو تو انہوں نے فرمایا: ’’بین امرہ‘‘ یعنی اس کا حال بیان کر دو۔ میں نے ابن مسہر سے پوچھا: ’’أتري ذلك من الغيبة‘‘ (کیا آپ اسے غیبت نہیں سمجھتے) فرمایا: ’’لا (نہیں)‘‘۔ [5] امام ابو حاتم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’تمام ائمہ کا اس بات پر اجماع ہے کہ اگر دو گواہ حاکم کے سامنے کسی دنیاوی معاملہ میں ایک دوسرے کے خلاف گواہی دیں اور حاکم ان دونوں گواہوں کی عدالت سے واقف نہ ہو تو اس پر لازم ہے کہ وہ کسی معدل یا مزکی سے ان کے متعلق دریافت کرے، اگر معدل ان کے بارے میں کسی عیب یا جرح کو جانتے بوجھتے چھپائے گا
Flag Counter