Maktaba Wahhabi

197 - 363
امام شافعی رحمہ اللہ سے منقول ہے: ’’اگر کسی محدث کو کذب کا علم ہو جائے تو اسے اس پر سکوت اختیار کرنا جائز نہیں ہے، اور نہ ہی یہ چیز غیبت ہے، کیونکہ علماء نقاد کی طرح ہوتے ہیں اور ناقد کے لئے دین میں یہ جائز نہیں ہے کہ وہ کھرے کو کھوٹے سے علیحدہ نہ کرے‘‘۔ [1] محمد بن بندر الجرجانی نے امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے کہا کہ میرے لئے کسی راوی کے متعلق یہ کہنا بہت سخت معلوم ہوتا ہے کہ فلاں ضعیف اور فلاں کذاب ہے۔ امام احمد رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’إذا سكت أنت فمتي يعرف الجاهل الصحيح من السقيم‘‘[2]یعنی ’’اگر تو خاموش رہے تو ایک جاہل صحیح کو سقیم سے کیسے جان پائے گا‘‘۔ حسین بن علی بن الحسین الاسکافی بیان کرتے ہیں: ’’میں نے امام احمد بن حنبل سے غیبت کے معنی پوچھے تو انہوں نے فرمایا: ’’إذا لم ترد عيب الرجل‘‘ (اگر تیری مراد کسی شخص کی عیب جوئی نہ ہو) میں نے پھر پوچھا: پس اگر ایک شخص یوں کہتا ہے کہ ’’فلان لم يسمع‘‘ یا ’’فلان يخطيء‘‘ (تو کیا یہ عیب جوئی نہیں ہے؟) آپ رحمہ اللہ نے فرمایا: اگر لوگ اسے بھی چھوڑ دیں تو صحیح کو غیر صحیح سے نہیں پہچانا جا سکتا‘‘۔ [3] ابو الحارث رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’میں نے سفیان ثوری رحمہ اللہ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے: ’’ما أستر علي أحد يكذب في حديثه‘‘ [4] مروی ہے کہ سفیان ثوری رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے: ’’فلان ضعيف و فلان قوي و فلان خذوا عنه و فلان لا تأخذوا عنه و كان لا يري ذلك غيبة‘‘[5](یعنی فلاں ضعیف ہے، فلاں قوی ہے، فلاں سے حدیث لو اور فلاں سے حدیث مت لو، لیکن اس کو غیبت نہیں سمجھتے تھے‘‘۔ اسی طرح مروی ہے: ’’أن سفيان الثوري مر برجل فقال كذاب، واللّٰه لولا أنه لا يحل لي أن أسكت عنه
Flag Counter