آں رحمہ اللہ آگے چل کر امام ابن معین رحمہ اللہ کا قول ہے: ’’إنا لنتكلم في أناس قد حطوا رحالهم في الجنة‘‘[1]اور امام بخاری رحمہ اللہ کا قول:
’’ما اغتبت أحدا مذ علمت أن الغيبة حرام‘‘[2]نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
’’و حجتهم التوصل بذلك لصون الشريعة و أن حق اللّٰه ورسوله هو المقدم‘‘[3]
ربیع بن صبیح روایت کرتے ہیں کہ حسن فرمایا کرتے تھے: ’’ليس لاهل البدعة غيبة‘‘[4]اسی طرح صلت بن طریف بیان کرتے ہیں کہ میں نے حسن سے پوچھا کہ: ایک فاجر شخص اپنے فجور کا اعلانیہ ارتکاب کرتا ہے، پس میں اگر اس کے فجور کا کسی سے تذکرہ کروں تو کیا یہ غیبت ہو گی؟ آپ نے فرمایا: ’’لا، ولا كرامة‘‘۔ [5]
امام دارقطنی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اگر کوئی توہم پرست اس بات کا شبہ کرے کہ جس نے حدیث مردود روایت کی ہے اس پر کلام کرنا غیبت ہے، تو اس کا جواب یہ دیا جائے گا کہ ایسا نہیں ہے کہ جیسا تم نے وہم کیا ہے بلکہ اہل علم کا اس امر پر اجماع ہے کہ دین میں دیانت دار اور مسلمانوں کے لئے نصیحت واجب ہے۔ اور ہم سے قاضی احمد بن کامل نے ابو سعید الھروی کے واسطہ سے روایت بیان کی ہے کہ: ’’ابوبکر بن الخلاد نے یحییٰ بن سعید القطان سے دریافت کیا کہ کیا آپ کو یہ خوف نہیں معلوم ہوتا کہ جن لوگوں کی روایت کو آپ نے ترک کیا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے سامنے آپ کے دشمن ہوں گے؟ یحییٰ رحمہ اللہ نے فرمایا: ’’یہ دشمن مجھے زیادہ محبوب ہے بہ نسبت اس بات کے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے دشمن ہوں اور آپ یہ فرمائیں کیوں نہ تو نے میری حدیث سے جھوٹ کو دور کیا‘‘، جب کہ جھوٹی گواہی دینے والے کا حال ظاہر کرنا واجب ہے چاہے وہ معمولی سا جھوٹ ہی کیوں نہ ہو، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ بولنے والے کا حال ظاہر کرنا زیادہ اولیٰ اور زیادہ ضروری ہے، کیونکہ جب شاہد شہادت میں جھوٹ بولتا ہے تو اس کے کذب کو مشہود علیہ پر عائد نہیں کیا جا سکتا، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ بولنے والا تو حرام کو حلال اور حلال کو حرام بناتا ہے اور اپنا ٹھکانا آگ سے تیار کرتا ہے، تو جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ بول کر اپنا ٹھکانا آگ سے تیار کر رہا ہو اس کے جھوٹ کو ظاہر کرنا کیوں کر جائز نہ ہو گا؟‘‘ [6]
|