Maktaba Wahhabi

195 - 363
کرتے ہوئے علامہ خطیب بغدادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’اس خبر میں من جهة النصيحة ضعفاء کی روایت سے اجتناب کرنے اور ان کی اخبار سے احتجاج نہ کرنے کی غرض سے جرح کی اجازت پر دلالت پائی جاتی ہے‘‘۔ [1] مذکورہ بالا آیت و احادیث اور علماء کی صراحت سے بدیہی طور پر معلوم ہوتا ہے کہ بوقت ضرورت ذب عن الشریعۃ اور حفاظت دین کے لئے کسی کے عیوب کا ذکر کرنا جائز بلکہ بعض اوقات ضروری اور واجب ہے۔ [2] امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بارے میں ایک باب یوں مقرر کیا ہے: ’’باب ما يجوز من اغتياب أهل الفساد والريب‘‘[3]حافظ ابن الصلاح رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’جرح کو شریعت کی صیانت اور خطا و کذب کی نفی کے لئے جائز کیا گیا ہے‘‘۔ [4] حافظ زین الدین عراقی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’وكما جاز الجرح في الشهود جاز في الرواة‘‘[5]یعنی ’’جس طرح گواہوں پر جرح درست ہے اسی طرح راویوں پر بھی جرح جائز ہے‘‘۔ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’وجوز الجرح والتعديل صيانة للشريعة‘‘[6]یعنی ’’شریعت کی حفاظت کے لئے جرح و تعدیل کو جائز کیا گیا ہے‘‘۔ امام عز بن عبدالسلام رحمہ اللہ ’’قواعد‘‘ میں فرماتے ہیں: ’’القدح في الرواة واجب لما فيه من إثبات الشرع ولما علي الناس في ترك ذلك من الضرر في التحريم والتحليل وغيرهما من الأحكام وكذلك كل خبر يجوز الشرع الاعتماد عليه والرجوع إليه و جرح الشهود واجب عندالحكام عند المصلحة لحفظ الحقوق من الدماء والأموال والأعراض والأبضاع والأنساب و سائر الحقوق‘‘ [7] امام سخاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’۔۔ولذا استثنوا هذا (أي الجرح) من الغيبة المهرمة و أجمع المسلمون علي جوازه بل عد من الواجبات للحاجة إليه وممن صرح بذلك النووي والعز بن عبدالسلام‘‘ [8]
Flag Counter