Maktaba Wahhabi

176 - 363
دوسرے کے متعلق جو حاسدانہ اقوال وارد ہوں انہیں رد کر دینے پر عہد صحابہ ہی سے سب کا اتفاق ہے، چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے: ’’استمعوا علم العلماء ولا تصدقوا بعضهم علي بعض فو الذي نفسي بيده لهم أشد تغايرا من التيوس في ذروبتها‘‘ [1] اسی طرح مالک بن دینار کا قول ہے: ’’يؤخذ بقول العلماء والقراء في كل شيء إلا قول بعضهم في بعض فإنهم أشد تحاسدا من التيوس‘‘ [2] امام ذہبی رحمہ اللہ نے بھی اس امر کی طرف یوں تاکید فرمائی ہے: ’’وكلام الأقران بعضهم في بعض لا يعبأ به لا سيما إذا لاح أنه لعداوة أو لحسد ما ينجو منه إلا من عصم اللّٰه وما علمت أن عصرا من الأعصار سلم أهله من ذلك سوي الأنبياء والصديقين‘‘ [3] علامہ عبدالرحمٰن المعلمی الیمانی رحمہ اللہ غضب و غصہ کی حالت میں کی جانے والی جرح کے متعلق فرماتے ہیں: ’’اللہ تعالیٰ کے رسول کے فرمان: ’’لا يقضين حكم بين اثنين وهو غضبان‘‘ (بخاری) سے اندازہ ہوتا ہے کہ علماء اور راویوں پر حکم لگانے کے لئے خصومات کے مقابلہ میں کہیں زیادہ تاکید اور بحث و نظر کی ضرورت ہے‘‘۔ [4] یہی وجہ ہے کہ علماء اور محققین امام مالک اور ابن اسحاق کے مابین چشمک کی جانب ملتفت نہیں ہوتے۔ مشہور واقعہ ہے کہ ایک دن ایک شخص نے امام مالک رحمہ اللہ سے کہا کہ محمد بن اسحاق لوگوں کو آپ کے علم سے بچنے کی تاکید فرماتے ہیں، ان کا قول ہے: ’’أعرضوا علي علم مالك بن أنس فإني أنا بيطاره‘‘ یہ سن کر امام مالک رحمہ اللہ نے غصہ سے فرمایا:
Flag Counter