اس اصول کے مطابق عبدالملک بن الصباح المسمعی البصری کے متعلق خلیلی کا قول: ’’كان متهما بسرقة الحديث‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’فهذا جرح مبهم‘‘[1]اور عبدالاعلیٰ بن عبدالاعلیٰ کے متعلق محمد بن سعد رحمہ اللہ کے قول: ’’لم يكن بالقوي‘‘ کے متعلق فرماتے ہیں: ’’هذا جرح مردود غير مبين‘‘[2]اور یزید بن ابی مریم الدمشقی کے متعلق دارقطنی رحمہ اللہ کے قول: ’’ليس بذالك‘‘ کے متعلق فرماتے ہیں: ’’هذا جرح غير مفسر فهو مردود‘‘[3]اور یحییٰ بن زکریا بن ابی زائدہ الکوفی کے متعلق ابو نعیم رحمہ اللہ کے قول: ’’ما كان بأهل لأن أحدث عنه‘‘ کے متعلق فرماتے ہیں: ’’وهذا الجرح مردود بل ليس هذا بجرح ظاهر‘‘[4]اسی طرح امام دارقطنی رحمہ اللہ کے سعید بن سلیمان الواسطی کے متعلق قول: ’’يتكلمون فيه‘‘ کے بارے میں فرماتے ہیں: ’’هذا تليين مبهم لا يقبل‘‘ [5](اس بارے میں ان شاء اللہ تفصیلی بحث آگے پیش کی جائے گی)۔
15- اگر کسی راوی پر رائے اور قیاس کے باعث جرح کی گئی ہو تو وہ بھی قابل التفات نہیں ہے۔ چونکہ بعض جارحین کے نزدیک سنداً و متناً حدیث کو روایت کرنا ہی علم تھا، لہٰذا فہم آثار میں وہ لوگ رائے کے دخل کو معیوب خیال کرتے ہوئے کہتے تھے: ’’إنه كان من أصحاب القياس والرأي‘‘ [6]
متقدمین کے نزدیک رائے کے محل جرح ہونے کی بہت سی مثالیں کتب رجال میں مذکور ہیں، چنانچہ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ محمد بن عبداللہ بن مثنی الانصاری کے ترجمہ میں ’’قدماء شيوخ البخاري ثقات‘‘ لکھنے کے بعد امام احمد بن حنبل کا یہ قول نقل فرماتے ہیں:
’’ما يضعفه عند أهل الحديث إلا النظر في الرأي‘‘ [7]
اسی طرح ساجی رحمہ اللہ، ولید بن کثیر المخزومی کے متعلق فرماتے ہیں:
’’قد كان ثقةً ثبتاً يحتج بحديثه لم يضعفه أحد إنما عابوا عليه الرأي‘‘ [8]
اور حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ربیعہ بن ابی عبدالرحمٰن پر افتاء بالرائے کے سبب کلام کیا گیا ہے‘‘۔ [9]
|