کے قول: ’’لا يتابع في حديثة‘‘ پر ابو الحسن بن القطان رحمہ اللہ کا تعقب نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’إن ذلك لا يضره إلا إذا كثر منه رواية المناكير و مخالفة الثقات‘‘ [1]
حافظ رحمہ اللہ مزید فرماتے ہیں:
’’مخالفة الحافظ لا تقدح فيمن هو أحفظ منه‘‘ [2]
امام عقیلی رحمہ اللہ کے صرف ایک حدیث کے سبب ازہر بن سعد السمان کو اپنی کتاب ’’الضعفاء‘‘ میں وارد کرنے اور ’’خولف فیہ‘‘ لکھنے پر تعاقب کرتے ہوئے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’وهذا لا يوجب قدحا فيه‘‘[3]اسی طرح امام عقیلی رحمہ اللہ کے یوسف بن اسحاق السبیعی کو بھی اپنی کتاب ’’الضعفاء‘‘ میں ذکر کرنے اور اس کے متعلق ’’يخالف في حديثه‘‘ لکھنے پر حافظ رحمہ اللہ تعقباً فرماتے ہیں: ’’وهذا جرح مردود‘‘ [4]
14- جن رواۃ کی عدالت ثابت ہو ان پر بعض علماء کی مبہم اور غیر مفسر جرح مردود سمجھی جائے گی، چنانچہ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا قول ہے:
’’كل رجل ثبتت عدالته لم يقبل فيه تجريح أحد حتي يتبين ذلك عليه بأمر لا يحتمل غير جرحه‘‘ [5]
امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’لم يلتفت أهل العلم إلي هذا النحو إلا ببيان وحجة ولم يسقط عدالتهم إلا ببرهان ثابت وحجة‘‘ [6]
حافظ ابن عبدالبر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’لا يقبل (جرح الجارح) فيمن صحت عدالته و علمت بالعلم عنايته وسلم من الكبائر ولزم المروءة والتعاون وكان خيره غالبا وشره أقل عمله فهذا لا يقبل فيه قول قائل لا برهان له به فهذا هو الحق الذي لا يصح غيره إن شاء اللّٰه‘‘ [7]
اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’إن كان غير مفسر لم يقدح في من ثبتت عدالته‘‘ [8]
|