’’إن حديثه لا يجوز لأنه محدود‘‘ یعنی ’’اس کی حدیث جائز نہیں ہے کیونکہ وہ محدود ہے‘‘
مگر حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’فمن هذه الجهة ليس الجرح فيه قادح‘‘ [1]
10- قلیل الحدیث ہونا بھی محل جرح نہیں ہے۔ ابن القطان الفاسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ بعض رواۃ کے متعلق ابن معین رحمہ اللہ کے ’’ليس بشئ‘‘ فرمانے سے (اکثر اوقات) ان کی مراد یہ ہوتی ہے کہ اس کی احادیث بہت قلیل ہیں (یعنی اس نے بہت ساری احادیث روایت نہیں کی ہیں) [2]واضح طور پر امام ابن سعد رحمہ اللہ، ابوبکر بن ابی موسیٰ اشعری رحمہ اللہ کے متعلق فرماتے ہیں:
’’كان أكبر من أخيه أبي بردة وكان قليل الحديث يستضعف‘‘
لیکن حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’یہ جرح مردود ہے‘‘۔ [3]
11- قلت شیوخ اور قلت رحلت بھی اسباب جرح نہیں ہیں۔
12- اگرچہ جہالت راوی مستوجب ضعف ہے اور مجہول کی روایت حجت نہیں ہوتی کیونکہ اہل جہالت عدول نہیں ہوتے، مگر جس راوی سے شیخین نے روایت کی ہو یا جس سے چاروں ائمہ ثقات روایت کرتے ہوں وہ راوی حد جہالت سے خارج ہوتا ہے۔ چنانچہ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’جن رواۃ سے صحیح میں تخریج کی گئی ہے ان کی جہالت حال مندفعہ ہے کیونکہ صحیح کی ایک شرط یہ بھی ہے کہ راوی عدالت کے ساتھ معروف ہو، پس اگر ان میں سے کسی کے متعلق کوئی یہ دعویٰ کرے کہ فلاں راوی مجہول ہے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ وہ امام بخاری رحمہ اللہ سے اس راوی کے معروف ہونے کے بارے میں نزاع کرتا ہے اور بلاشبہ کسی کی معرفت کا مدعی اس کی عدم معرفت کے مدعی سے مقدم ہوتا ہے۔ علم کی زیادتی ہی موجب اثبات ہوتی ہے۔ پس صحیح کے رجال میں کوئی ایسا راوی نہیں ملے گا جس پر اصلاً جہالت کا اطلاق ممکن ہو‘‘۔ [4]
اسی طرح ایک اور مقام پر آں رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ليس بمجهول، من روي عنه أربعا ثقات‘‘ [5]
13- اگرچہ پانچ معروف اسباب جرح میں سے ایک سبب مخالفت ثقات بھی ہے، لیکن جب تک مخالفت بکثرت نہ ہو، مضر نہیں ہوتی، اسی طرح بعض ائمہ جرح کا قول: ’’خولف‘‘ یا ’’يخالف في حديثه‘‘ موجب ضعف نہیں بلکہ جرح مردود ہے، چنانچہ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ، ثابت بن عجلان انصاری کے ترجمہ میں امام عقیلی رحمہ اللہ
|