سے تخریج کرنا ہے جس کے ترک کرنے پر ائمہ کا اجماع نہ ہو‘‘۔[1]
لیکن حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’اس قول سے امام نسائی رحمہ اللہ کے مذہب کا متسع ہونا ثابت نہیں ہوتا کیونکہ کتنے ہی ایسے رواۃ ہیں جن سے ابو داؤد اور ترمذی رحمہما اللہ نے روایت لی ہے لیکن نسائی رحمہ اللہ نے ان سے اجتناب کیا ہے، بلکہ انہوں نے تو صحیحین کے رجال کی ایک جماعت سے بھی تخریج احادیث میں اجتناب کیا ہے‘‘۔ [2]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ، حارث بن عبداللہ الھمدانی کے ترجمہ میں امام نسائی رحمہ اللہ کے تعنت کا اظہار فرماتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’حديث الحارث في السنن الأربعة والنسائي مع تعنته في الرجال‘‘ [3]
آں رحمہ اللہ ایک اور مقام پر لکھتے ہیں: ’’وقد احتج به النسائي مع تعنته‘‘[4]یعنی ’’امام نسائی رحمہ اللہ نے باوجود تعنت کے ان سے احتجاج کیا ہے‘‘۔
امام ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ کے تعنت و تشدد کا اظہار کرتے ہوئے حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ ایک مقام پر فرماتے ہیں: ’’و أبو حاتم عنده عنت‘‘[5]امام ذہبی رحمہ اللہ نے بھی ’’میزان‘‘[6]میں امام ابو حاتم رحمہ اللہ کے تعنت کا تذکرہ کیا ہے۔ حافظ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ابن معين و ابو حاتم من أصعب الناس تزكية‘‘ [7]
8- علماء کے نزدیک جرح و تعدیل کی جو صفات معتبر ہیں ان کا نہ جاننے والے کی جرح قبول نہیں کی جائے گی۔ [8]مثال کے طور پر اگر کوئی شخص کسی راوی کے متعلق دریافت کرے تو جارح اس پر جرح کر دے لیکن جب اس جرح کی تفسیر اور سبب پوچھا جائے تو کہے: ’’يسمع ممن هو أصغر منه و أكبر‘‘ [9]
علی بن عامر پر اس لئے جرح کی گئی ہے کہ وہ اپنے سے چھوٹے بڑے ہر ایک سے روایت کرتے تھے، حالانکہ یہ کوئی عیب کی بات نہیں ہے۔
9- اقامت حد بھی جرح قادح نہیں ہے، یحییٰ بن معین رحمہ اللہ نے یعقوب بن حمید بن کا سب پر اقامت حد کے باعث جرح کرتے ہوئے کہا ہے:
|