Maktaba Wahhabi

169 - 363
فتویٰ دیا اور سلطان کی خدمت بجا لانے اور اس کے ہدایا قبول کرنے کے باعث اس کی قرأت کو ترک کر دیا تھا۔[1] 5- امراء کی مجالس میں شریک ہونا اور ان سے انعامات و ہدایا قبول کرنا امر تجریح نہیں ہے۔ امام زہری اور عکرمہ ابو عبداللہ مولی ابن عباس کا امراء سے جوائز قبول کرنا ثابت ہے، لیکن کسی نے اس باعث ان کی روایات کو ترک نہیں کیا ہے، پس جوائز کا قبول کرنا روایات کے مقبول ہونے میں مانع نہیں ہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’و أما قبول الجوائز فلا يقدح أيضا إلا عند أهل التشديد و جمهور أهل العلم علي الجواز‘‘ [2] 6- اگر جارح خود مجروح ہو تو اس کی جرح بالخصوص صحیحین کے رجال کے بارے میں قبول نہیں کی جائے گی اور نہ ہی اس کی وہ تعدیل معتبر ہو گی جس کی موافقت کوئی دوسرا معدل نہ کرتا ہو۔ امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ومن المحال أن يجرح العدل بكلام المجروح‘‘[3]یعنی ’’مجروح کے کلام سے عدل پر جرح قائم کرنا محال ہے‘‘۔ امام ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ ابن خراش کے کلام پر نقد کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’ابن خراش مذكور بالرفض والبدعة فلا يلتفت إليه‘‘ [4] آں رحمہ اللہ ایک اور مقام پر فرماتے ہیں: ’’ولا عبرة بقول الأزدي لأنه هو ضعيف فكيف يعتمد في تضعيف الثقات‘‘ [5] اور امام ذہبی رحمہ اللہ، موسیٰ بن اسماعیل المنقری کے متعلق ابن خراش کے قول: ’’صدوق و تكلم الناس فيه‘‘ پر تعقباً لکھتے ہیں: ’’نعم تكلم الناس فيه بأنه ثقة ثبت يا رافضي‘‘[6]یعنی ’’ہاں اے رافضی! لوگوں نے ان کے بارے میں یہ کلام کیا ہے کہ وہ ثقہ ثبت ہیں‘‘۔ 7- نقد رواۃ کے معاملہ میں متشددین مثلاً امام نسائی رحمہ اللہ، ابو حاتم الرازی رحمہ اللہ، یحییٰ بن سعید القطان رحمہ اللہ اور ابن حبان
Flag Counter