Maktaba Wahhabi

168 - 363
جائے گا‘‘۔[1]اس سلسلہ میں علماء و محققین نے آنکھیں کھلی رکھنے اور ایسی جرح پر اعتبار نہ کرنے کے بارے میں متنبہ فرمایا ہے، جیسا کہ اوپر حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ کے کلام میں گزر چکا ہے۔ 3- وہ جرح قبول نہ کی جائے گی جو فقہی مسالک کے اختلاف یا فقہی گروہ بندی اور تعصب کے باعث منقول ہو مثلاً امام ابن معین رحمہ اللہ کا امام شافعی رحمہ اللہ کے متعلق یہ فرمایا: ’’ليس بثقة‘‘ [2] 4- صوفیاء کی محدثین پر جرح مردود ہے، چنانچہ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’وكذا عاب جماعة من الورعين جماعة دخلوا في أمر الدنيا فضعفوهم لذلك ولا أثر لذلك التضعيف مع الصدق والضبط‘‘ [3] یعنی ’’اسی طرح متورع حضرات (صوفیاء) کی ایک جماعت نے ان لوگوں کی تضعیف کی ہے جو لوگ (شرعاً جائز) امور دنیا میں دخیل تھے، حالانکہ فی الحقیقت صدق و ضبط کے اعتبار سے یہ تضعیف بے اثر ہے‘‘۔ صوفیاء کے علاوہ بعض محدثین مثلاً مکحول، وھیب، زائدہ، ابن سیرین، شعبہ، احمد بن حنبل اور امام مالک رحمہم اللہ سے بھی اس بارے میں بعض رواۃ پر جرح منقول ہے، مثال کے طور پر زائدہ رحمہ اللہ نے حمید الطویل کو عمل سلطان میں سے کسی چیز میں دخول کے سبب ترک کیا تھا۔ ابن سیرین رحمہ اللہ، حمید بن ھلال سے دخول فی العمل کے باعث راضی نہ تھے۔ اور شعبہ رحمہ اللہ نے خالد بن مہران پر دخول فی العمل کے باعث ہی کلام کیا ہے۔ [4] اس طرح کی ایک اور مثال امام مکحول رحمہ اللہ کا امام زہری رحمہ اللہ پر یہ کلام ہے: ’’أي رجل الزهري لولا أنه أفسد نفسه بصحبة الملوك‘‘ [5] امام مالک رحمہ اللہ بھی سلطان اور اس کے اصحاب کے سایہ سے فقیہ کا دور رہنا مستحسن سمجھتے تھے۔ [6] چنانچہ ذکوان ابو الزناد کے متعلق امام مالک رحمہ اللہ سے عمل سلطان میں دخول کے سبب کراہت منقول ہے۔ [7] براعظم افریقہ کے بعض مالکی صوفیاء کا خیال ہے کہ جو شخص سلطان کی ملازمت یا اس کے ساتھ کام کرنا اختیار کرتا ہے وہ مریض القلب ثقیل المکان ہے، چنانچہ فقہائے قیروان نے ابو القاسم خلف بن البراذعی کے متعلق رفض کا
Flag Counter